میرے دین کی ہر بات حکمت سے پرہے، حسنِ معاشرت کے ہر پہلو کو بڑے خوبصورت انداز میں سمجھایا گیا ہے، بلکہ عملی طور پر اس کی عکاسی کی گئی ہے۔آپ اور صحابہ کرام کی زندگی ایسے واقعات سے منور ہے جہاں آپ نے اور صحابہ کرام نے اپنی ذات کو تکلیف میں رکھ کر سامنے والے کے ساتھ بھلائی کی، بلا تفریق، چاہے سامنے والا مسلمان ہو یا کافر۔آپ کے اسی حسنِ سلوک سے سامنے والا نہ صرف آپ کی ذاتِ اقدس کے گن گاتا، بلکہ کلمہ طیبہ پڑھنے پر مجبور ہوجاتا۔
زندگی کی اساس اصل میں احساس پر قائم ہے۔زندگی وہی کچھ تو ہے جیسے ہم سمجھ لیں۔ دوسرے الفاظ میں جیسا ہمارا احساس ہو گا ویسی ہماری زندگی ہو جائے گی۔تمام بیرون اندرون میں احساس کی کیفیت اختیار کر لیتا ہے۔بے حسی، انسان اور انسانیت’دونوں کی دشمن ہے۔انسان کے پیدا ہونے کا دن وہ ہے جس دن اس کے اندر احساس پیدا ہوتا ہے۔ احساس سے محرومی دنیا کی سب سے بڑی محرومیوں میں سے ایک ہے۔ اسلام بھی انسان کی زندگی میں جو بہت بڑا کام کرتا ہے وہ یہ کہ اسلام انسان میں احساس کو بیدار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں’یہاں تک کہ اگر ایک مسلمان تکلیف میں ہو تو دوسرے مسلمان کا بے چین ہو جانا اسلام کا تقاضا ہے۔ اب جو چیزیں ہماری ہیں یا کسی بھی اور انسان کی ہیں تو کیا ہم یا وہ انسان ہر وقت ان چیزوں کو اپنے ساتھ لئے پھرتا ہے۔ بالکل نہیں۔ہمارے یا اس انسان کے پاس کیا چیز ہر وقت رہتی ہے یا رہ سکتی ہے؟ وہ چیز ہے احساس۔بات صرف احساس کی ہے اگر ہم اپنے اندر احساس پیدا کر لیں تو شاید ہماری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہ پہنچے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو اکثر ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ اپنے آپ کو تکلیف میں رکھ کر دوسروں کی مدد کے لیے آگے بڑھتے۔ انہیں دوسروں کی تکلیف کا احساس اپنی ذات سے زیادہ محسوس ہوتا۔ دوسرے کی تکلیف پر بے حسی کا مظاہرہ ”انسانیت” کی علامت نہیں ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، دوسروں کا احساس کرنا ہی اس اشرف المخلوقات کی ایک بڑی خوبی ہے، اسی احساس کی بدولت وہ دوسروں کی مدد کے لیے آگے بڑھتا ہے اور دعائیں بھی حاصل کرتا ہے۔ حضرت عمرفاروق اپنے دورِ خلافت میں حسبِ معمول شہر کے حالات معلوم کرنے کے لیے رات کو گشت کررہے تھے، ایک جگہ سے گزرے تو ایک جھونپڑی سے کسی عورت کے کراہنے کی آواز آرہی تھی، معلوم کیا تو اس کے شوہر نے بتایا کہ اس کی زوجہ کے یہاں بچے کی ولادت ہونے والی ہے جس کے درد کی وجہ سے وہ کراہ رہی ہے اور کوئی دیکھ بھال کرنے والی خاتون نہیں۔ آپ فوراً گھر پہنچے، بیوی کو ساتھ لیا اور اس حاملہ خاتون کے گھر چھوڑا کہ اس کی مدد اور دیکھ بھال کرو۔ تمام رات امیرالمومنین حضرت عمرفاروق اور ان کی زوجہ محترمہ وہاں موجود رہے۔ صبح اجالا ہوا، وہ عورت زچگی سے فارغ ہوچکی تھی، حضرت عمر فاروق نے اپنی زوجہ محترمہ کو لیا اور گھر واپس آئے، تب گھر کے مکینوں کو پتا چلا کہ ان کی مدد کرنے والی معتبر ہستیاں کون تھیں۔ یہ عمل ہے ایک مسلمان مومن کا۔نہ صرف دوسرے کا احساس بلکہ اپنی ذات کو تکلیف میں رکھ کر سامنے والے کی مدد کی۔ اس واقعے کا موازنہ آپ اپنے آس پاس کے واقعات سے کریں تو معلوم ہوگا کہ اتنی بے حسی اور خودغرضی آج چاروں طرف نظر آرہی ہے۔ احادیثِ مبارکہ ہمیں انسانیت کا درس دیتی ہیں۔ کامل مسلمان ہی اُسے کہا گیا ہے جو دوسروں کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ ہر خیر اور بھلائی جو اپنے لیے چاہتا ہے وہ دوسرے انسان کے لیے بھی چاہتا ہے۔
اسی طرح کوئی انسان تکلیف میں ہو تو اس کا درد ہمیں محسوس ہونا چاہیے، نہ صرف یہ، بلکہ اس کی تکلیف کو دور کرنے کے لیے آگے بھی بڑھنا چاہیے۔اس عمل سے ایک دوسرے پر اعتماد، ہمدردی اور محبت کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل میں بھی یہی خوبی پیدا کرنی چاہیے کہ وہ کسی کے درد کو محسوس کریں اور دوسروں کی تکالیف کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ان کے ذہنوں میں انسانیت کے جذبات پیدا کرنے سے گھر اور معاشرتی ماحول میں پیار و محبت کی فضا استوار ہوتی ہے، اوروہ معاشرے کا بھرپور انداز میں خیال رکھتے ہیں، ان کی ذرا ذرا سی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں ، اور یقینا ایسے ہی لوگ اپنے آس پاس رہنے والوں کی تکالیف سے بھی بے خبر نہیں رہتے، انہیں دوسروں کا احساس بھی اتنی شدت سے ہوتا ہے جسے اپنوں کا۔خدا ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)۔