گلگت بلتستان میں ادب کے فروغ کیلئے اکادمی ادبیات کے دفاتر کھولے جائیں :غزالہ کیفی ،امجد زیدی

g12-1.jpg

گلگت بلتستان کا ادب اس خطے کا ایسا سرمایہ ہے جس کو اجاگر کر کے خطہ کیساتھ ملک کا نیک نام ہوگا،سپیکر اسمبلی، یہاں فروغ ادب کے لئے کام کیا جائے ،میثم کاظم
صوفی شاعر بوا جوہر کے عرفانی کلام کی برکت سے جس شجر ادب کا بیج بویا جارہا ہے وہ ضرور تناور درخت بنے گا اور علاقائی ادب ملکی ادب کے دھارے میں شامل ہوگا،خطاب
اسلام آباد (عارف سحاب) گلگت بلتستان میں ادب کے فروغ کیلئے اکادمی ادبیات کے دفاتر کھولے جائیں گیجبکہ بلتی اور شینا کے ادب ملک کے دیگر زبانوں کے ادب کے ساتھ ساتھ ترویج دینے کے اقدامات کیئے جائیں گے ۔ اکادمی ادبیات اسلام آباد میں بوا جوہر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار پارلیمانی سکریٹری برائے قومی ورثہ و ممبر قومی اسمبلی غزالہ سیفی نے کیا ۔ ان کاکہنا تھا کہ گلگت بلتستان کا ادب پاکستان کا آئینہ ہے اور اس خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے حکومت سنجیدگی سے کوشاں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلتستان کے صوفی شاعر بوا جوہر علی جوہر کے نام س ے وفاق میں بلتستان کے ادب کے آغاز کی جو بنیاد پڑی ہے اس کے بعد امیدہے کہ گلگت بلتستان کا ادب ملک کے گوشے گوشے تک پہنچے گا ۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی ادب کے اس ارتقا میں متقدمین کا کلیدی کردار ہے ۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسپیکر قانون ساز اسمبلی سید امجد زیدی نے کہا کہ گلگت بلتستان کا ادب اس خطے کا ایسا سرمایہ ہے جس کو اجاگر کر کے نہ صرف خطہ بلکہ ملک نیک نام ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات کے قیام کیلئے زمین اور مالی معاونت بھی کی جائے گی ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں ایک شاعر ہوں اور مجھے خدمت کا موقع ملا ہے اس لیے ادب کی خدمت اور ادیبوں کی خدمت لازمی کروں گا اور اس سلسلے میں میرے ذہن میں کئی امور بھی ہیں ۔ سید امجد زیدی نے اپنے خطاب میں بوا جوہر کوخراج عقیدت پیش کیا ۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر میثم کاظم نے کہا کہ گلگت بلتستان ادب اور ادیبوں کی سرزمین ہے اس لیے لازمی ہے کہ یہاں فروغ ادب کے لئے کام کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ صوفی شاعر بوا جوہر کے عرفانی کلام کی برکت سے جس شجر ادب کا بیج بویا جارہا ہے وہ ضرور تناور درخت بنے گا اور علاقائی ادب ملکی ادب کے دھارے میں شامل ہوگا ۔ہماری حکومت کا مشن ہی یہی ہے کہ ایک ایسا گلگت بلتستان بنائیں جس پر سب رشک کریں ۔ افسوس ہے کہ سکردو جیسے جنت نظیر شہیر کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے ۔ تاہم اب اس شہر کو حقیقی معنوں میں جنت بنا کر دکھائیں گے ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نامور ادیب اور محقق محمد حسن حسرت نے بوا جوہر کے عارفانہ کلام اور بحر طویل پر مدلل مقالہ پیش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ بحر طویل میں بوا جوہر علی جوہر کا کلام ایسا شاندار شاہکار ہے کہ جس پر عہد جدید کی شاعری بھی رشک کرئے ۔انہوں نے بوا جوہر علی جوہر کی بحر طویل سے ترنم میں بند بھی سنائے جنہیں حاضرین نے بہت سراہا ۔معروف قلم کار خواجہ قاسم نسیم نے کہا کہ بوا جوہر کانفرنس کا انعقاد ا ز خود اپنی جگہ ایک تاریخ ہے ۔ گلگت بلتستان سے ادب کا سفر اب ملک کے دار الحکومت تک آگیا ہے یعنی یہاں کے اداروں میں متقدمین کے فن و کلام پر بات کی جارہی ہے تو یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ علم و عرفان کی برکتیں آشکار ہورہی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اکادمی ادبیات نے بوا جوہر کانفرنس کر کے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے اس کو جتنا سرا ہا جائے کم ہے ۔ محمد یوسف حسین آبادی نے اپنیخطاب میں تصوف اور عرفان پر روشنی ڈالی اور انہوں نے بوا جوہر کی شاعری ،ان کے فنی محاسن اور دیگر پہلووں پر سیر حاصل گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ بلتستان کے ادب کی خوشبو اسلام آباد میں جس طرح مہکی ہے اس پر چیئر مین اکادمی ادبیات ڈاکٹر یوسف خشک کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔دیگر مقررین ڈاکٹر نعیم وائس چانسلر بلتستان یونیورسٹی ، خواجہ مہر داد ،ڈاکٹر حسن خان اماچہ ،غلام حسن حسنو نے بھی اپنے اپنے خطاب میں بوا جوہر کانفرنس کے انعقاد کو ہوا کا خوش گوار جھونکا قرار دیا ۔ چیئرمین اکادمی ادبیات نے خطبہ استقبالیہ میں اعلان کیا کہ اکادمی ادبیات اپنے ریجنل دفتر کے لئے سنجیدگی سے کوشاں ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلتستان میں بوا جوہر کے عارفانہ کلام کو وہی حیثیت حاصل ہے جوسندھ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی ،پنجاب میں بابا بلھے شاہ ،پشاور میں بابا رحمان اور دیگر صوفیا کو حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے مقامی ادب کے فروغ کے لیے یہاں کے ادیبوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیاجائے گا ۔تقریب میں یوسف کھسن،غلام مہدی شاہد اور محمد حسین آزاد نے منظوم حاضری دی جبکہ احسان علی دانش اور عارف سحاب نے نظامت کی ۔
غزالہ

شیئر کریں

Top