آدمی کا جہاد !۔۔۔۔میجر مسعودالحسن

 

گزشتہ دنوں ہندوستانی ریٹارڈ میجر گورو آریا کا ایک مشہور پاکستانی اینکر کے ساتھ انٹرویو سنا۔ جس میں ہندوستان پاکستان تعلقات کو موضوع بنا کر دونوں ملکوں کے حالات بہتر بنانے کے امکانات ہر بحث کی گی تھی۔ دوران گفتگو میجر صاحب نے کمال ڈھٹای اور صفای سے تمام تر کشیدگی کی ذمہ داری ہاکستان ہر تھوپ دی۔اور چند باتیں ایسی بھی کیں جن کی ہندوستان کی حکومتوں کے ماضی میں لیے گیئے اقدامات بالکل بھی تاید نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہندوستان ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور تجارتی تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ موصوف کے اس بیان میں یہاں تک تو سچای ہے کہ ان کا ملک تجارتی تعلقات رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس میں بھی بنیئے کا بچہ کچھ دیکھ کر گرنے کے مصداق ان کا اپنا ہی فائدہ ہے۔ اس طریقے سے وہ اپنی مصنوعات کے لیے ایک مستقل منڈی حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہندوستان کی طرف سے کوی ایسا موقع نہیں ضاع کیا جاتا کہ جس کو استعمال میں لا کہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جاے۔ ماضی بعید کے واقعات جن میں وطن عزیز کا دو لخت کیا جانے تک کی سازشیں بھی شامل ہیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی دریاوں پر بند باندھ کر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے
بعد متعدد بار اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانا، کبھی پانی روک کہ ہماری زراعت کو شدید متاثر کرنا تو کبھی زیادہ پانی چھوڑ کر ملک میں سیلاب سے نقصان پہنچانے کے علاوہ بہت سے ایسے اقدام ہیں جن سے ہندوستان نے اپنی ازلی دشمنی کو فروغ دینے کا ثبوت دیا ہے۔ حال ہی میں ایک نیے بیراج کی تعمیر بھی ہندوستان کے اسی پلان کو تقویت دینے کی جانب ایک قدم ہے۔ دوسری طرف جہاں ہماری سرحدی علاقوں پر اکثر ہندوستانی افواج کی بلا اشتعال گولہ باری تباھی کا باعث بنتی ہے وہیں ملک کے اندر ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات کے تانے بانے بھی وہیں جا کر ملتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حالیہ چند خودکش دھماکوں کے واقعات میں بھی یہی ھاتھ کارفرما ہے۔ جبکہ قوم نے ابھی تک ابھینندن اور کلبھوشن یادیو کو فراموش نہیں کیا جنہوں نے باقاعدہ وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کے پلان کو عملی جامع پہنایا۔ مندرجہ بالا کے علاوہ بھی چاہے کھیل کا میدان ہو۔ صنعت و تجارت ہو۔ ثقافت ہو۔ یا اور کوی میدان ہمارا یہ ہمسایہ شروع سے ہم پر ہر سمت سے حملہ آور ہوتا آرہا ہے۔ مذکورہ گفتگو میں بھی میجر صاحب نے یہ دعوی کر کہ گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ اگر پاکستان ہماری طرف امن و دوستی کا ھاتھ بڑھاے تو ہم بھی اس سمت میں آگے بڑھیں گے۔ یہ ایک مضحکہ خیز دعوی ہے کیونکہ یہ بات چیلنج کے طور پر کہی جاسکتی ہے کہ گزشتہ ستر بہتر سالوں میں پاکستان کی ہر حکومت نے ہندوستان سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں پہل کی ہے۔ اور ہر مرتبہ آگے بڑھ کر کشیدگی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ دوسری جانب سے نہ صرف یہ کہ زبانی بھی اس کا اعتراف نہیں کیا گیا بلکہ عملا بھی ایسے اقدام لیے گیے جن سے کشیدگی میں اضافہ ہی ہوا۔ دراصل اس گفتگو کے ذریعے موصوف نے پاکستانی عوام کو حسب سابق گمراہ کرنے میں کوی کسر نہیں چھوڑی۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی کہ نہ تو ابھینندن والا واقعہ اتفاقی تھا اور نہ ہی میاں چنوں کے نواح میں گرنے والا میزایل غلطی سے فار ہوا۔ گویا اس طرح وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ ہم اپنی خو نہ بدلیں گے۔ اس کے ساتھ ہی موصوف پاکستان میں حالیہ سیاسی کشمکش۔ گزشتہ حکومت کے خاتمے اور اداروں کی کارکردگی کے سلسلے میں بھی منفی نقطہ نظر کو بیان کرنے سے باز نہیں آئے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ ہندوستان کے تمام سیاسی حلقوں نے زبان سے اعتراف کے باوجود دل سے پاکستان کے وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اور جب بھی موقع ملا اس کو نقصان ہی پہنچانے کی کوشش کی۔ ہر جارحیت میں اکھنڈ بھارت کے دوبارہ قیام کے عزم کا اظیار کیا گیا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر بھی محاذ کھول دیا گیا جس کے تحت جھوٹ اور پروپگنڈہ پر مبنی مواد وہاٹس ایپ اور دیگر نیٹ ورک پر پھیلا کر عوام کے دلوں میں اداروں اور رہنماوں کے خلاف نفرت کے بیج بونے کی کوشش کی۔ ہمارے رہنماوں کی کردار کشی کی گی۔ اس قسم کی کوششوں کی خبریں ہم اکثر الیکٹرونک میڈیا ہر سنتے رہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے ہمیشہ سے معاملات گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جاتا رہا۔ اسی پالیسی کا اظہار گزشتہ اور حالیہ حکومتوں کی جانب سے بھی کیا گیا۔ ہندوستانی مسلمانوں اور کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی پاکستانی حکومتوں نے سفارتی سطح تک خود کو محدود رکھا۔ اور گفت و شنید کو ہی ذریعہ بنا کر مسئلہ حل کرنے پر زور دیا۔ اگرچہ مندرجہ بالا تمام منفی اقدامات کا توڑ پاکستان کے متعلقہ ادارے کرتے آ رہے ہیں اور ان کا ہر پلان طشت از بام کرنے کے باوجود کبھی یہاں سے کوی انتقامی کارروای نہیں کی گی اس کے باوجود دوسری جانب سے آے دن کی پیش قدمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے دعوں میں کتنی سچائی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستانی عوام کو بھی دشمن کے منصوبوں کو ناکام بنانے کی جانب پیش قدمی کرنی چاہیئے۔ سوشل اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے پھیلای جانے والی جھوٹی خبروں۔ منفی پروپگنڈہ اور نفرت آمیز مواد کا مکمل بایکاٹ کرنا چاہئے۔ ہر پوسٹ پر آنکھیں بند کر کہ یقین کر لینا اور اسے Forwarded as Received کے عنوان سے آگے بڑھا دینے سے اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ اس طرح دشمن کے ھاتھ مضبوط ہوتے ہیں۔ آج کل کے تیز ترین سوشل میڈیا کے دور میں کسی بھی خبر کی تصدیق کرنا کوی مشکل کام نہیں۔ چند سیکنڈوں میں اصل بات سامنے آ جاتی ہے۔ اس لیے تصدیق ہونے تک ایسی باتوں کی تشہیر نہ کیجیے۔ آج کے دور کی جنگ کا یہ وہ محاذ ہے جہاں ہر شہری ایک مجاھد کی طرح اپنے ملک کا دفاع کر سکتا ہے۔ اور مادروطن سے محبت کا تقاضا یہی ہے کہ اس کی عزت و توقیر پر مٹی اچھالنے والے کے عزام کو خاک میں ملا دیا جاے۔ اس محاذ پر دشمن کے حملوں کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہر ہم وطن کو جہاد کرنا چا ہئے۔

شیئر کریں

Top