اگرمیں دہشت گردتھا۔۔ممتازعباس شگری

اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے انڈیا سمیت دیگر ممالک مین اہم جگہوں پر لیکچر دینے کا موقع کیوں دیا گیا؟ اگر میں دہشت گرد تھا تو انڈیا کے سات وزرائے اعظم مجھ سے ملنے میری رہائش گاہ پر کیوں آئے ، اگر میں دہشتگرد تھا تو اس پورے کیس کے دوران میرے خلاف چارج شیٹ کیوں فائل نہیں کی گئی۔ اگر میں دہشت گرد تھا تو وزیراعظم واجپائی کے دور میں مجھے پاسپورٹ کیوں جاری کی گئی۔ میں عدالت سے بھیگ نہیں مانگوں گا عدالت کو جو صحیح لگے وہ کرے ، مجھے قبول ہے ۔ یہ وہ الفاظ ہے جو یاسین ملک نے ہندوستان کی عدالت میں سزا سنانے سے قبل ادا کیا ۔ان الفاظ نے انڈین عدالت میں ایک ہلچل مچا دی، سب کو جھنجور کررکھ دیا۔ انڈیا کی عدالت نے کشمیری رہنما کو دس لاکھ جرمانہ اور عمر قید تو سنائی لیکن یاسین ملک کی ان الفاظ نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایک دہشتگرد سے ملنے ہندوستان کی وزیراعظم کیوں آئے تھے؟ میں آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو یاسین ملک کے بارے میں آگاہ کرناچاہتا ہوں۔تین اپریل 1966کو کشمیر میں پیدا ہونے والے یاسین ملک کم سنی میں ہی علیحدگی پسند صفوں میں شامل ہو گئے تھے ، وہ 1980 کے دوران ‘اسلامِک سٹوڈنٹس لیگ’ کے جنرل سیکریٹری بنے تھے۔ 1986 میں سرینگر میں انڈیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے عالمی ایک روزہ کرکٹ مقابلے کے دوران انڈیا مخالف نعرے بازی، پتھراواور میچ کے وقفے میں پِچ کھودنے کے الزام میں یاسین ملک کئی ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیے گئے تھے۔ 1987 میں وہ علیحدگی پسندوں کے سیاسی اتحاد ‘مسلم متحدہ محاذ’ کے قریب ہوگئے اور مقامی اسمبلی کے انتخابات میں انھوں نے جماعت اسلامی کے رہنما اور محاذ کے اُمیدوار محمد یوسف شاہ کے لیے انتخابی مہم بھی چلائی تھی۔1988 میں یاسین ملک غیر قانونی طور پر لائن آف کنٹرول عبور کر کے آزاد کشمیر آئے اور واپسی پر جموں کشمیر لبریشن فرنٹ نامی عسکری تنظیم کے مرکزی رہنما بن گئے۔ ایک برس بعد 1989 میں یاسین ملک کی قیادت میں ہی لبریشن فرنٹ نے جیل سے اپنے ساتھیوں کو رہا کروانے کے لیے اُس وقت کے انڈین وزیرداخلہ مفتی محمد سید کی بیٹی روبیہ سید کا اغوا کیا تھا اور کئی روز کے مذاکرات کے بعد جب تنظیم کے کئی مسلح لیڈروں کو رہا کیا گیا تو روبیہ سید کو بھی رہا کر دیا گیا تھا۔ کئی برس ایسی سرگرمیاں جاری رکھنے کے بعد 1994 میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے۔1990 میںانڈین فضائیہ کے چار افسروںکے قتل کے الزام میں حکومت نے یاسین ملک کو براہ راست ذمہ دار قرار دے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ۔کئی برس بعد 1994 میں یاسین ملک نے بھارتی فورسز کے خلاف یکطرفہ سیز فائر کا اعلان کر کے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کو ایک سیاسی تنظیم قرار دے دیا اور عہد کیا کہ وہ مسلہ کشمیر حل کرنے کے لیے عدم تشدد کی پالیسی پر گامزن رہیں گے ملک نے وادی بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے حق میں ایک دستخطی مہم چلائی جس کا نام ‘سفرِ آزادی’ تھا۔ اس مہم کی عکس بندی اور کشمیر کے بارے میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کشمیریوں کو کلیدی کردار دینے کا مطالبہ لے کر وہ 2006 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے بھی ملے تھے۔ یاسین ملک گزشتہ کئی برسوں سے جیل میں ہے لیکن بائیس فروری 2019 کے بعد سے ان کاانکی فیملی سے ساتھ بھی کوئی رابطہ نہیں ہے 25مئی 2022کو بھارتی عدالت نے یاسین ملک کے تمام سوالات کو رد کرتے ہوئے انہیں سزا دے کر یہ ثابت کردیا کہ مودی کے دیس میں انصاف نہیں انصاف کا قتل عام ہوتا ہے ، یاسین ملک بھارتی عدالتوں سے ناامید ہوچکے تھے انہیں یقین تھا کہ انہیں کسی صورت سزا ہی دینی ہے انہوں نے اپنا مقدمہ عدالت کے سامنے رکھا لیکن عدالت نے ایک نہ سنی۔ آپ یہاں سے ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مودی کے دیس میں انصاف کا کتنا بول بالا ہے لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا اس سے پہلے بھی کئی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں کئی گھروں کو جلاچکے ہیں کئی مسجد وں کو شہید کرچکے ہیں ، لیکن جمہوریت کے دعوے دار اس ملک میں انصاف کی کسی کوکوئی امید ہی نہیں ، جہاں مسلمانوں کے ساتھ آئے روز ظلم وبربریت کی نئی رواج قائم ہوتی ہے ۔ آپ انتہا دیکھیں انڈیا کی عدالتوں میں انصاف کا قتل ہوتا ہے اور یہ آئے روز پاکستان کے خلاف بولنے میں تلے ہوئے ہیں ۔ یاسین ملک جیسے رہنما کوعمر قید کی سزا سنانا ماورائے عدالت قتل کے مترادف ہے ۔ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ یاسین ملک کے معاملے کو عالمی عدالت میں اٹھائیں تاکہ یاسین ملک سمیت کشمیر میں موجود مسلمانوں کو انصاف مل سکیں ورنہ دوسری صورت دشت میں دہشت پھیلانا مودی کا شیوہ ہے یہ پھیلاتے رہے ہیں مسلمانوں کو مارتے رہیں گے اورہم صرف افسوس ہی کرسکیں گے ۔

شیئر کریں

Top