توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس؛ عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال

123-545.jpg

اسلام آباد: توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں سیشن کورٹ نے عمران خان کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست خارج کرتے ہوئے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو 18 مارچ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
عمران خان کے آج دوسرے کیس میں ناقابل وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس میں ناقابل وارنٹ جاری ہوچکے ہیں۔
عمران خان کے خلاف توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کیا۔ عمران خان نے آج سیشن کورٹ پیش نا ہونے کا فیصلہ کیا جس کے متعلق وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا۔
خواجہ حارث نے فوجداری کارروائی قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا جبکہ عمران خان کی جانب سے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کی گئی۔
دلائل کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان آج عدالت پیش نہیں ہو سکتے اور ایسا نہیں کہ عمران خان جان بوجھ کر عدالت میں پیش نہیں ہونا چاہتے بلکہ عمران خان کو سیکیورٹی تھریٹس ہیں۔ ہم نے اسلام اباد اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، عمران خان پر حملہ ہوا جس میں عمران خان زخمی ہوئے تھے، عدالت نے آج قانونی صورتحال دیکھنی ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دو درخواستیں دائر کر دیں۔ خواجہ حارث نے الیکشن کمیشن کے کمپلیننٹ خارج کرنے کی استدعا کی اور عمران خان کو آج کی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست دی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ عدالت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے قبل کیس کے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے۔
وکیل عمران خان خواجہ حارث نے الیکشن کمیشن کی شکایت پر اہم قانونی سوالات بھی اٹھا دیے۔ انہوں نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کے خلاف شکایت بھیجتے ہوئے قانون کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا، الیکشن کمیشن کس صورت میں شکایت بھیج سکتا ہے؟ الیکشن کمیشن اگر شکایت بھیجنا چاہتا ہے تو طریقہ کار کیا ہوگا؟ شکایت کنندہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمیشن ہے ہی نہیں اور شکایت بھیجنے کی مجاز اتھارٹی نے شکایت بھیجی ہی نہیں۔
خواجہ حارث نے دلائل میں مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت قانون کی مختلف مختلف جہتیں ہیں، نامزدگی فارم جمع کروانے کے 120 روز میں ہی کرمنل کارروائی کر سکتے ہیں، کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کے تحت اگر کارروائی کرنی ہے تو 120 روز میں ہی کرنی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نااہلی یا دیگر کی بات نہیں کر رہا ہے بلکہ میں صرف کرپٹ پریکٹیسز کی بات کر رہا ہوں، کرمنل پروسںیڈنگز نامزدگی فارم جمع کروانے کے 120 روز کے اندر ہی کر سکتے ہیں اس لیے عدالت کارروائی آگے بڑھانے سے پہلے قابل سماعت کا فیصلہ کرے۔
خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو پڑھ کر بتایا کہ ہائیکورٹ نے لکھا کہ عمران خان کے وارنٹ حاضری یقینی بنانے کے لیے جاری کیے گئے تھے، ہائیکورٹ نے لکھا 13 مارچ کو عمران خان نہیں آتے تو عدالت قانون کے مطابق کاروائی آگے بڑھائے، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے عدالت پہلے قابل سماعت ہونے کا فیصلہ کرے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے دلائل کا آغاز کیا۔
وکیل الیکشن کمیشن کے دلائل
وکیل الیکشن کمیشن سعد حسن نے کہا کہ ان کا رویہ عدالت کے سامنے بڑا مناسب تھا اس سے پہلے ان کے جو وکیل پیش ہوتے رہے ان کا رویہ مختلف ہوتا تھا، عمران خان کے وارنٹ گرفتاری ابھی بھی آن فیلڈ ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے ان کی درخواست وارنٹ کے حوالے سے خارج کی۔
سعد حسن نے کہا کہ صرف عدالت نے کچھ وقت ان کو دیا کہ وہ متعلقہ عدالت کے سامنے ہوں، صرف چند روز کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ نے آرڈر معطل کیا تھا اس لیے جب تک وارنٹ پر عمل نہیں ہوتا یا عدالت واپس نہیں آتے تو وہ آن فیلڈ ہیں، عدالت عمران خان کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کروائے اور وارنٹ پر عمل کروانے والی اتھارٹی کو شوکاز کرے، دو ہفتے ہوگئے ابھی تک وارنٹس پر عمل درآمد کیوں نہیں کروایا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ہائیکورٹ نے کہا اگر عمران خان نہیں آتے تو عدالت قانون کے مطابق دیکھے اور قانون کے مطابق دیکھنے کا مطلب ہے عدالت قابل سماعت ہونے کا معاملہ بھی دیکھے، عدالت کا وارنٹ کا حکم آن فیلڈ ہے وہ کسی بھی وقت عمل درآمد کروا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں نے آج کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی ہے، عمران خان آج عدالت کے سامنے کیوں نہیں آئے؟ اصل حقائق عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ وزیر آباد ریلی میں عمران خان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کے بعد عمران خان کی زندگی کو تھریٹس ہیں کہ ان پر حملہ ہو سکتا ہے، ایسا نہیں ہے کہ عمران خان عدالت کے سامنے پیش نہیں ہونا چاہتے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت نے عمران خان سے سیکیورٹی واپس لے لی ہے، عمران خان سے وہ سیکیورٹی بھی واپس لے لی گئی جو قانونی طور پر ان کو ملنا ضروری ہے، عمران خان پر اس وقت ملک بھر میں 40 کے قریب جعلی مقدمے درج ہو چکے ہیں، محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں کیا ہوا تھا؟ محترمہ بے نظیر کو وہ سیکیورٹی نہیں دی گئی تھی جو ملنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ لیاقت علی خان کے ساتھ کیا ہوا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے، اس معاملے میں تو عمران خان پر پہلے بھی قاتلانہ حملہ ہو چکا ہے اور سیکیورٹی کے حوالے سے ہم نے یہاں بھی اور ہائیکورٹ میں بھی پٹیشن فائل کی، ہم نے ہائیکورٹ میں ویڈیو لنک کی درخواست بھی دی ہوئی ہے، اگر میری ایک درخواست استثنیٰ کی خارج بھی ہو تو دوسری بھی عدالت کے سامنے ہے۔ الیکشن کمیشن نے کمپلیننٹ فائل کی تھی تو یہ دیکھتے کہ کیا 120 روز کے بعد فائل کر سکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سیکیورٹی، ویڈیو لنک اور جوڈیشل کمپلیکس سماعت والی باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں، عدالت پہلے ہی ان کی درخواستیں خارج کر چکی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ انہوں نے تو ثابت ہی کر دیا کہ الیکشن کمیشن کی Authorization ہے ہی نہیں، الیکشن کمیشن نے خود یہ Authorization دینی ہے جو موجود ہی نہیں۔ جب کمپلیننٹ فائل کی، بیان ریکارڈ کروایا اور پیروی کر رہے ہیں تو الیکشن کمیشن کی Authorization دیکھا دیں، اتنا بڑا سقم ہے یہ درخواست تو آج ہی خارج ہونی چاہیے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو درخواست کے قابل سماعت ہونے والی درخواست پر وقت چاہیے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی مجھے کچھ وقت چاہیے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جس نے کمپلیننٹ فائل کی وہ تو مجاز ہی نہیں تھا ان کو تو اتھارٹی ہی نہیں تھے، عدالت آج ہی سن لے اور درخواستوں پر فیصلہ کرے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میں آفس نوٹنگ سے ثابت کر دوں گا کہ الیکشن کمپلیننٹ کے لیے مجاز کیا گیا تھا۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ آفس نوٹنگ نہیں یہاں آپ نے حلفیہ بیان دیا ہے، الیکشن کمیشن کا مطلب سیکریٹری نہیں نا چیف الیکشن کمشنر بلکہ پانچ ممبران ہیں اور انہوں نے سیکریٹری کی کاپی ریکارڈ کے ساتھ لگائی ہوئی ہے وہ مجاز ہی نہیں لہٰذا عدالت ان کی درخواست ابھی خارج کرے یہ تو الیکشن کمیشن کی طرف سے مجاز ہی نہیں تھے۔
انہوں نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن کی دستاویزات پر ہی دلائل دے رہا ہوں، عدالت نے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرنا ہے یہ تو کمپلیننٹ فائل کرنے کے مجاز ہی نہیں۔ ایڈیشل ڈائریکٹر الیکشن کمیشن نے کہا کہ پورے الیکشن کمیشن کی منظوری ہے جس کے بعد یہ کرمنل کمپلیننٹ فائل ہوئی۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کہاں ہے عدالتی ریکارڈ پر کہ یہ کمپلیننٹ فائل کرنے کے مجاز تھے، اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں وقت دیں تو پھر یہ کارروائی کیسے آگے بڑھ سکتی ہے، جب تک فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ یہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں تو کارروائی آگے نا بڑھائیں، کیا کسی اور کے ہاتھ میں کھیل ہے۔
دلائل سننے کے بعد جج ظفر اقبال نے عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا اور 3 بجکر 15 منٹ پر فیصلہ سنانا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز پیش ہوئے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے دلائل میں کہا کہ وارنٹ جاری کرنے کے ذریعے عمران خان کو عدالت پیش ہونے کا موقع دیا گیا تھا، عمران خان کی جانب سے آج عدالت حاضر نہ ہونے کی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائی گئی ہے۔ ملک میں سب کو سیکیورٹی خدشات ہیں لیکن عدالتی کارروائی نہیں روکی جا سکتی۔
وکیل نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا آج عدالت پیشی کے حکم کو چیلنج نہیں کیا گیا، جس کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوں اس کو ریلیف نہیں دینا چاہیے اس لیے آئی جی اسلام آباد کو عمران خان کے وارنٹ جاری کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں، کیا عمران خان واحد سابق وزیراعظم ہیں جن کو عدالت پیشی کے لیے بلایا گیا ہے؟
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عمران خان کے وارنٹ کو قابلِ اطلاق کرنے کی استدعا کی۔ وکیل نے کہا کہ عمران خان اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا بھی ناجائز استعمال کر رہے ہیں، عدالت پیش نہیں ہو رہے اور حکم نہیں مان رہے۔ اگر 120 دنوں تک کوئی جرم رپورٹ نہیں ہوا تو کیا جرم نہیں رہتا؟ عمران خان عدالت پیش ہوں، کیس قابل سماعت ہونے پر بحث کرنے کو تیار ہیں، عمران خان کا رویہ عدالتی احکامات کے پیش نظر مثبت نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے دلائل مکمل کرلیے جبکہ عمران خان کے وکیل گوہرعلی خان نے جواب الجواب دینا شروع کر دیے۔
وکیل گوہرعلی خان نے کہا کہ عمران خان کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی کیس مقرر تھا اور عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت کیوں نہیں دی جا رہی، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ویڈیو لنک کی درخواست پر پرسوں سماعت کرنی ہے اور جلدی کیا ہے؟ کیا ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کی سماعت کا انتظار نہیں کرسکتے؟
وکیل گوہر علی خان نے کہا کہ مانتا ہوں کہ سیشن عدالت کا وقت ضائع ہوا لیکن عمران خان کے خلاف کیس اثاثوں والا ہے ہی نہیں، ہمارا کیس تو اثاثے ظاہر نہیں کرنے کا ہے۔
دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت کی جانب سے محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا گیا۔

شیئر کریں

Top