جذام پر قابو پانے کیلیے دوا جلد متعارف کرائی جائے گی، مارون لوبو

1234-200.jpg

کراچی(ویب ڈیسک)میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے چیف ایگزیگٹوافسرمارون لوبو نے کہا ہے کہ جذام کے مرض پر قابو پانے کیلیے جلد ہی دوا متعارف کرادی جائے گی۔ایم اے ایل سی کے چیف ایگزیگٹوافسرمارون لوبو نے نے جزام کا عالمی دن کی مناسبت سے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہاکہ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کیلیے جلد ہی دوا متعارف کرادی جائے گی، یہ پہلی دوا ہوگی جو جذام کے مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو زندگی میں ایک بار دی جائے گی۔انہوں نے بتایا کہ یہ دوا جذام کے جراثیم کے ختم کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، عالمی ادارہ صحت نے جذام پر قابو پانے کے لیے دوا کی منظوری دی ہے، یہ دوا مختلف ممالک میں استعمال کی جارہی ہے جبکہ پاکستان میں رجسٹریشن کے بعد یہ دوا دستیاب ہوگی۔اس موقع پر ڈائریکٹر ٹریننگ ڈاکٹر علی مرتضی، ڈائریکٹر ہیومن ریسورسز/ایڈمنسٹریشن سیویو پریرا نے بھی خطاب کیا، مارون لوبو کامزید کہنا تھا کہ ایم اے ایل سی عالمی ادارہ صحت کی سفارش اورحاصل نتائج کی روشنی میں اس سال کراچی اور بلوچستان کے ان اضلاع میں جہاں جذام کے نئے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے ایک پائلٹ پروجیکٹ کے ذریعے نئے اور سابقہ مریضوں کے قریبی اہلِ خانہ کو جذام کی ریفامپسین دوا کی ایک خوراک کھلانے کا پروگرام شروع کیا جارہاہے۔عالمی ادارہ صحت کی اس سفارش پر دنیا کے مختلف ممالک میں دواکے استعمال سے خاطر خواہ نتائج حاصل ہوئے ہیں اس دوا کے استعمال سے جذام مرض کے پیدا ہونے کا خطرہ 50فیصد سے زائد کم ہوجاتا ہے۔
جذام کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعدادسندھ میں ہے
ماہرین کاکہنا ہے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں ہے، 2020 میں 81 نئے رجسٹرڈ کیس تھے،پچھلے سال صوبہ سندھ میں81 نئے مریض رجسٹرد کیے جاچکے ہیں، سندھ کے بعد خیبر پختونخوا میں 60اور پنجاب میں 61 مریض رجسٹرڈکیے گئے، اس صورتحال کی بنیادی وجہ ایک تو اس بیماری کے ظاہر ہونے کا طویل دورانیہ ہے جو 5سال سے20سال تک کا ہے اور دوسری وجہ عام لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں معلومات کا فقدان بھی ہے، نئے مریضوں میں معذوری کی شرح بھی اِسی وجہ سے زیادہ ہے۔انھوں نے مزید بتایا کہ ایم اے ایل سی گزشتہ 6 دہائیوں سے جذام مرض کے خاتمے کے لیے سرگرم ہے، 1996میں پاکستان میں جذام مرض پر قابو پایا جا چکا ہے، اس بیماری کے خاتمے کے بیشتر اہداف بھی حاصل کیے جا چکے ہیں۔
ایسے مریض موجودہیں جودوسروں کوبیماری میں مبتلاکرسکتے ہیں
گزشتہ 25برسوں سے ملک میں نئے مریضوں کی تعدادمیں بھی کمی کا رجحان برقرار ہے، اِن تمام کامیابیوں کے باوجودہم یہ ہر گز نہیںکہہ سکتے کہ اس موذی مرض کا جڑ سے خاتمہ ہو چکا ہے، اب بھی پاکستان میں ایسے مریض موجود ہیں جو دوسروں میں اس بیماری کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنھیں سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کا بروقت علاج کر کے بیماری کے مکمل خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔

شیئر کریں

Top