”ذی الحج کے پہلے عشرہ کی فضیلت–” حاجی محمد لطیف کھوکھر

ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی کتاب وسنت میں بڑا مقام حاصل ہے۔سال کے دوسرے دنوں پر ان دس دنوں کو برتری حاصل ہے۔ان دس دنوں کی قسم اللہ نے قرآن کریم میں کھائی ہے۔اور اللہ تعالی کسی امر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے قسم کھاتا ہے۔ذی الحج کے یہ ایام مومنوں کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ایک مسلمان ان دنوں میں اپنے رب کا تقرب حاصل کرنا اور اپنی نیکیوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔حدیث کے مطابق ان دس دنوں میں کیا جانا والا ہر نیک عمل اللہ تعالیٰ کو دوسرے دنوں کے بالمقابل زیادہ پسند ہے۔اس لئے ان دنوں کو غنیمت جانتے ہوئے ہر مسلمان کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے چاہئے۔اس میں دو رائے نہیں کہ عشرہ ذی الحج میں سب سے اہم عبادت حج کی ادائیگی ہے اور اس کا اجر وثواب بھی بہت زیادہ ہے۔چنانچہ جو مسلمان حج بیت اللہ کی استطاعت رکھتا ہے اسے ضرور یہ سعادت حاصل کرنی چاہئے۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو افضل ترین عمل قرار دیا ہے(صحیح بخاری)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کو جنت میں داخلے کا اہم ذریعہ بھی قرار دیا ہے(صحیح بخاری)۔جو اس عشرہ ذی الحج میں حج کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ اپنے گھر پر رہ کربھی نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی کے بے شمار انعامات کا مستحق ہوسکتا ہے،یہاں تک کہ حج کے برابر ثواب حاصل کرسکتا ہے۔
سب سے پہلے ہمیں اپنے دل کی صفائی ستھرائی کی فکر کرنی چاہئے تاکہ اس عشرہ میں کئے جانے والے ہمارے اعمال قبول ہوں۔ایسا نہ ہو کہ ہم محنت بھی کریں اور کوئی اجر بھی نہ ملے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اخلاص کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا”اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریں اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ابراہیم کے دین پر نماز کو قائم رکھیں اور زکوة دیتے رہیں یہی ہے دین سیدھی ملت کا”۔ (البینہ:5) دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ”جس کا ارادہ صرف اس جلدی والی دنیا(فوری فائدہ) کا ہی ہو اسے ہم یہاں جس قدر جس کے لئے چاہیں سردست دیتے ہیں بالآخر اس کیلئے ہم جہنم مقرر کردیتے ہیںجہاں وہ برے حالوں دھتکارا ہوا داخل ہوگا”۔(بنی اسرائیل: 18ـ19)دونوں آیتوں سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنی عبادتوں کے اندر اخلاص پیدا کرنا چاہئے دکھاوے کی خاطر کوئی عمل نہیں کرنا چاہئے۔ ذی الحج کے ان دس دنوں میں ہر مسلمان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا برتائو کرنا چاہئے۔ان کے ساتھ بد سلوکی اور بد تمیزی نہیں کرنی چاہئے۔اللہ کی نگاہ میں توحید کے بعد سب سے اہم کام والدین کی خدمت اور ان کااحترام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور تیرا پرور دگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا،نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب واحترام سے بات چیت کرنا۔اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے”۔(بنی اسرائیل: 23ـ24)عبد اللہ بن مسعود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا”۔(صحیح بخاری)ایک دوسری مشہور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو بدنصیب قرار دیا جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور ان کی خدمت کے ذریعہ جنت حاصل نہ کرے۔(صحیح مسلم) ان حدیثوں کے پیش نظر ذی الحج کے ان دس دنوں میں ہمیں اپنے والدین کے ساتھ خصوصی تعلق اور ان کی خاطر داری کرنی چاہئے۔انہیں ناراض کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔اگر ہمارے ماں باپ زندہ نہیں ہیں تو ایسی صورت میں ہم ان کے لئے دعائے مغفرت،ان کی جانب سے صدقہ وخیرات،ان کے وعدوں کو پورا اور ان کے متعلقین سے اپناپن اور رشتہ قائم رکھیں،یہ چیزیں بھی والدین کے حسن سلوک میں داخل ہیں۔ذی الحج کے ان دس دنوں میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا تعلق رکھنا چاہئے۔اپنے اوپر عائد ان کے حقوق کی ادائیگی کی حتی المقدور جتن کرنی چاہئے۔خواہ مخواہ رشتوں کو منقطع کرنا،رشتہ داروں کو دور کرنا یا انہیں کسی طرح پریشان کرنا مذموم عمل ہے۔ کچھ نوجوان اپنی عمر اور طاقت کا بیجا استعمال کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کو برا بھلا کہتے اور ان کا دل دکھاتے ہیں لازمی طور پر ایسے بدبخت نوجوانوں کو اپنا محاسبہ کرنا اور اللہ کے عذاب سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے۔ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حقیقی رشتہ جوڑنا یہ ہے کہ جو آپ سے رشتہ توڑے اس سے آپ رشتہ وابستہ رکھیں”۔(صحیح بخاری)ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رشتہ عرش سے معلق ہے اور کہتا ہے جو مجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوں گا اور جو مجھے توڑے گا میں اس کو توڑوں گا۔(صحیح بخاری و مسلم) اسلام خیر خواہی اور بھائی چارے کا مذہب ہے۔اسلام محبت اور امن وسکون کا پیغامبر ہے۔اسلام کی طبیعت میں ظلم وجور نہیں ہے۔اسلام کسی کا ناحق خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔اسلام کی نگاہ میں ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔اسی مقصد کے تئیں اسلام ہر حال میں مسلمانوں کو مصالحت پر ابھارتا ہے۔کامیاب اور غیر جانب دارانہ ثالثی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔چنانچہ ان بابرکت دنوں میں ہر مسلمان کو خون خرابے سے دور اور پیار ومحبت سے رہنا چاہئے۔اگرآپس میں جھگڑا یا ناچاقی ہے تو اسے مل بیٹھ کر دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔اللہ تعالی نے فرمایا” مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں،اس لئے ان کے مابین مصالحت کراؤ،اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے”ـالحجرات: 10۔ان دس دنوں میں ہر مسلمان کو بکثرت ذکر واذکار کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس کی خصوصی تاکید اللہ تعالیٰ نے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا”اور لوگوں میں حج کی منادی کردے لوگ تیرے پاس پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے۔ تاکہ اپنے لیے فائدے حاصل کریں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یادکریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں۔ پس تم آپ بھی کھاو اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاو”۔ (الحج: 27ـ28)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق ان دس دنوں میں زیادہ سے زیادہ تہلیل،تکبیر اور تسبیح بیان ہونی چاہئے۔ عید الاضحی کی تکبیرات اسی میں داخل ہیں۔ ذی الحج کا چاند دیکھنے کے بعد سے مطلق طور پر قربانی کے آخری دن تک تکبیر بلند کرنا مسنون ہے۔ بالخصوص عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے قربانی کے آخری دن عصر کی نماز کے بعد تک اس کی بڑی فضیلت ہے۔ صحابہ کرام جہاں رہتے تھے ان دس دنوں میں وہیں تکبیرات عید کا اہتمام کیا کرتے تھے۔اس زمانے میں ہم قربانی اور نئے پوشاک کا اہتمام تو کرتے ہیں مگر تکبیرات کا کچھ خاص خیال نہیں ہوتا، اس لئے لازما ہمیں ان سنتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ان دس دنوں میں نفلی روزوں ،صدقہ خیرات اور قربانی کرنے کا بھی بڑا ثواب ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر مسلمان اپنی استطاعت بھر اس خیر وبھلائی کے موسم سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایسا نہ ہوکہ وقت گزر جائے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔ اللہ ہم سب کو نیک کاموں کی توفیق دے اور ہمارے اعمال کو قبول بھی فرمائے۔

شیئر کریں

Top