سیاسی مہرے……تحریر……راجہ حسین راجوا

جمہوریت ایک بہترین طرز حکمرانی ہے، کہتے ہیں بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے، اس ملک میں جمہوریت کو کمزور کرنے کیلے ہر قسم کے حربے اپناے جا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی بات ہی الگ ہے انھوں نے ہر دور میں اقتدار کی حصول کیلے غیر جمہوری قوتوں کا سہارہ لیا ہے، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی ایک تاریخ ہے، انھوں نے اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری سوچ کی آبیاری کی ہے، جمہوریت کا مطلب اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کو تحمل سے سننا اور سیاسی قوتوں کی وجود کو قبول کرنا ہے، اس دفعہ پیپلز پارٹی بھی غلط سمت پہ چل پڑی ہے، انھیں ایک دفعہ پھر سوچنا پڑے گا کہ کہیں انکی تاریخ بھی دغدار نہ ہوں، ملک میں تحریک انصاف کی حکومت عوامی مینڈیٹ لے کر بنی ہے، عوام نے پانچ سال کے لیے عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو اس ملک میں حکمرانی کا حق دیا ہے، اگر ہم سیاست دان کی بات کرے تو وہ ایک فرد واحد ہوتا ہے عوام کا مینڈیٹ ان کے پاس ضرور ہوتا ہے لیکن منتخب ہونے کے بعد ان کے ذاتی بھی کچھ مفادات ہوتے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوے وہ فیصلے لیتے ہیں لیکن عوام نے 2018 کی الیکشن میں عمران کے منشور کو ووٹ دیا ہے، لوگوں نے ترین کو یا علیم کو ووٹ نہیں دیا ہے بلکہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا ہے ، اب وہ اپنی سیاسی مفادات کی حصول کیلے پارٹی کو یرغمال بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، پیسوں کے بل بوتے پر کچھ ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنے ساتھ ملایا ہے باقی سب جانتے ہیں عوام میں یہ اتنے مقبول نہیں۔ اپوزیشن پارٹیز بشمول پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے عدم اعتماد کی تحریک کو سپیکر چمبر میں جمع کروای ہے، مانتا ہوں یہ ایک جمہوری عمل ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی یا ناکامی پہ بات کرنا فالحال قبل از وقت ہے، اگر عدم اعتماد کامیاب ہوتا ہے تو ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا، ہمارا ملک پہلے سے ہی بحرانوں کا شکار ہے اس سے اور بھی مسال میں گر جاے گا، ایک منتخب وزیراعظم کو نکالنا اتنا آسان کام نہیں اس سے ملک کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔ عدم اعتماد کی تحریک نام ہونے کی صورت میں عمران خان کسی بھی آپشن پہ غور کر سکتے ہیں، وہ اس ملک میں صدارتی نظام بھی نافذ کر سکتے جس سے موجودہ پارلیمانی نظام کو ٹہس پہنچ سکتا ہے۔ جمہوریت پسند سیاسی قوتوں کو اس حوالے سے بھی سوچنا پڑے گا، کیونکہ عمران خان اپنے ایک خطاب میں کہ کہ چکے ہیں عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ جو کرونگا اسکا انھیں اندازہ نہیں۔33 سال بعد ایک جمہوری وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گی ہے، 1889 میں انہی سیاسی اور جمہوری مہروں نے اس وقت کی منتخب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔ پیپلز پارٹی والوں کا حافظہ اتنا کمزور تو نہیں لیکن آصف ذرداری پنجاپ میں سیاسی اثر رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں، پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی آگ اور پانی کے مانند ہیں انھوں نے کبھی ایک نہیں ہونا ہے، عمران خان ایک بہانہ ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی آپس میں سیاسی رسہ کشی جاری ہے، ایک دوسرے کو گرانے کے چکر میں غلط سمت پہ چل پڑے ہیں۔ احتجاج اور سیاسی جلسے کرنا ہر جمہوری پارٹی کا حق ہے، بلاول بھٹو ذرداری کی لانگ مارچ کی میں حمایت کرتا ہوں انکے کارکن پرامن رہے اور عوام کا بہت بڑا سپورٹ انکو ملا جس سے انکی پارٹی کا مورال بھی بلند ہوگیا، لیکن عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننا میرے خیال میں کوی عقل مندی والی بات نہیں اس سے ان دونوں پارٹیوں (مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی) کا اتنا فادہ نہیں ہوگا، عدم اعتماد ناکام ہوں یا کامیاب دونوں ہی صورتوں میں انکی بدنامی ہوگی، کچھ قوتیں جن کی طرف عمران خان بھی ذکر کر چکے ہیں ان کی اس بات کو تقویت ملے گی، عوام پاکستان اس بات پہ سوچنے پہ مجبور ہونگے کہ بیرونی قوتیں انھیں مہروں کے طور پہ استعمال تو نہیں کر رہے ہیں، یہ بات بھی سچ ہے کہ جمہوریت کو کمزور کرنے میں سیاستدان ہی استعمال ہوتے رہے ہیں، ملک میں سیاسی افراتفری پیدا ہوگی تو تمام پارٹیوں کا ہی نقصان ہوگا جس کا خمیازہ غریب عوام کو پھگتنا پڑے گا۔ اللہ مملکت خداداد پاکستان کا حامی ناصر ہوں، پاکستان زندہ باد جمہوریت پائندہ باد۔

شیئر کریں

Top