غریب عوام،مہنگائی اور اپوزیشن! شجاعت خان

سیاست کی گرما گرمی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ اپوزشن نے پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ کے نام سے پورے پاکستان میں ایک تحریک شروع کر دی ہے۔یہ تحریک ووٹ کی عزت،ووٹ کی حرمت، ووٹ کے دفاع،مہنگائی اور اپوزیشن کی گرفتاریوں کے خلاف کی آواز بلند کرے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے دعوے کیے جا رہے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا ،عدلیہ، اداروں پر دبا کا مقدمہ پی ڈی ایم لڑے گی۔پی ڈی ایم تحریک میں بھی اتحادی جماعتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیش آئے لیکن انہیں حل کر لیا گیا ۔اب روٹیشن کی بنیاد پر پی ڈی ایم کی سربراہی کی باری تمام اتحادی پارٹیوں کو دیے جانے کی قرارداد منظور کی گء۔اب باری باری ہر پارٹی اپنی سرابراہی میں یہ تحریک چلائے گی۔ اسٹئیرنگ کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی کو اس تحریک کا جنرل سیکرٹری ،پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کو نائب صدر اور اے این پی کے افتخارحسین کو انفارمیشن سکیرٹری چنا گیا۔ مولانا فضل الرحمن کو اس تحریک کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔انہوں نے۔ 1993 میں جب بے نظیر بھٹو وزارت عظمی کی امیدوار تھیں فتوی جاری کیا تھا کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی ناجائز ہے بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی تو مولانا صاحب بے نظیر بھٹو کی حکومت کا حصہ بن گئے تھا۔اب وہ مریم نواز کے پیش پیش ہو کر بھی ایک بار پھر اپنے فتوے کے خلاف جا رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں کچھ آخرالزماں نہیں ہوتا۔اس طرح آصف زرداری صاحب کو لڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے والے شہباز شریف بھی مشکل وقت میں زرداری صاحب کے پاس مدد کے لیے جا چکے ہیں،لیکن چائنہ کی ترقی کے بانی مازے تنگ اپنی تقریروں میں کہا کرتے تھے کہ سیاست میں اپنے سیاسی ضمیر کی حفاظت کرنی چاہیے اور اخلاقیات کے دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور نہ کسی کی زات پر حملہ کرکے کسی کا تمسخر اڑانا چاہیے۔واضح رہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے خلاف تحریک کا باقاعدہ آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں جلسیسے کرنے جارہی ہے جس میں پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو نے بھی شرکت کرنے کی حامی بھر لی ہے جب کہ دوسرا جلسہ کراچی میں 18 اکتوبر کو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے وجود سے لے کر آج تک حکومت میں آنے والی پارٹیاں صرف الیکشن سے پہلے بلندوبانگ دعوے کرتی ہیں۔ حکمرانی کی کرسی ملنے کے بعد پتا نہیں کونسا سانپ انہیں سونگھ جاتا ہے کہ اپنے کیے ہوئے وعدوں سے مکرنا شروع کردیتے ہیں ۔کچھ اسطرح پاکستان تحریک انصاف کا حال ہے عمران خان صاحب نے الیکشن سے پہلے بہت بڑے بڑے بلندوبانگ دعوے کر ڈالے تھے۔ان بلندوبانگ دعوں سے تحریک انصاف نے حکومت تو حاصل کر لی لیکن عوام کے ساتھ کیے جانے والے وعدے وفا نہ ہو سکے۔ الیکشن سے پہلے انہوں نے جو منشور عوام کے سامنے رکھا تھا جو بڑے بڑے اعلانات کیے تھے ان سے پیچھے ہٹنا شروع کردیا جس کو عوامی سطح پر یوٹرن کا نام دیا گیا اور پھر خان صاحب نے بھی یوٹرن کو نا صرف ایک عظیم رہنما کی سب سے ایم خوبی قرار دیا بلکہ ہٹلر اور نپولین سمیت دیگر رہنماں کی ناکامی کی وجہ بھی یوٹرن نہ لینے کو قرار دے ڈالا۔پہلے اپنے اعلانات کو 100 روز میں پورے کرنا کا وعدہ کیا تھا پھر عوام کو چھ ماہ انتظار کرنے کا کہا گیا اب دو سال سے بھی زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد نہ تو ریاست مدینہ کا خواب پورا ہو سکا اور نہ تحریک انصاف اپنے وعدے پورے کرسکی۔آج پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں اتنی مہنگائی نہیں ہوئی جتنی اب ہے۔لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پرمجبور ہیں۔اشیاخوردنوش کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے غریب آدمی سے منہ کا نوالہ تک چھن لیا۔ایک طرفہ مہنگائی عروج پر ہے دوسری طرف بے روزگاری میں دن بدن آضافہ ہوتا جا رہا ہے۔سبزیاں،دالیں ، گوشت،مرغی،مچھلی،مصالحے لوگوں کی دسترس سے کوسوں دور ہو چکے ہیں۔پیٹرول ، ڈیزل ،مٹی کا تیل،آٹا ،گھی، دالیں کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ ہر بار عمران خان خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں خلاف کاروائی کرنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن جیت پھر بھی مافیا کی ہوتی ہے۔حالات تو یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ کل تک پاکستان چینی اور گندم دنیا کو دیکر ررمبادلہ کماتا تھا آج یہ چیزیں پاکستان خریدنے پر مجبور ہو گیا۔پاکستان روس سے ایک لاکھ اسی ہزار ٹن گندم خرید رہا ہے۔پتا نہیں کہاں گئی ہے خان صاحب کی وہ معاشی ٹیم جن کا زکر بار بار کینٹینرز پر کھڑے ہوکر کیا کرتے تھے۔

دوسری طرف وزیراعظم پاکستان عمران خان کی تقریریں محض سیاسدانوں کو این آر او، سزائیں دلوانے پر محیط ہیں۔ایک آدمی کو ان بات سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا کہ کس کو گرفتارکر لیا ہے، کسی کو این آر او نہیں دیا جائے گا بلکہ معاشی ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عام آدمی کو معیشت سے متعلق اعداد و شمار،ملکی قرضے یا خسارے سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ وہ صرف معیشت کو اشیائے ضرورت کی قیمتوں اور روزگار کے دستیاب مواقعوں کے پس منظر میں دیکھتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے عام آدمی کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔غریب بیچارے اپنے بچوں کو بھوکا سلانے مجبور ہیں۔ہر آدمی اس بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہے۔تبدیلی سرکار نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے۔ادویات کی قیمتوں ڈاھائی سو فیصد تک آضافہ کر دیا گیا ہے اب 30 روپے میں ملنے والی گولی 100 روپے میں جا کر ملتی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں ہونے والے مختلف لیبارٹری ٹیسٹوں کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ آضافہ کر دیا گیا ہے۔عمران خان نے مہنگائی کنٹرول کرنے کیلیے ٹائیگر فورس کو نامزد کردیا ہے دوسری طرف حکومتی وزرا بالکل خاموش ہیں ۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بد حالی اور غریبی کو روکنے کیلیے حکومت کو جدوجہد اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔مہنگائی روکنے کیلیے حکومت کو اپنے تمام وسائل کو قوت کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے،تاکہ غریب آدمی کا چولہہ جلتا رہے اور وہ فاقوں سے بچ جائیں۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو غریبوں کی آہیں اس حکومت کو لے ڈوبیں گی۔

شیئر کریں

Top