”ماں ”تو ماں ہوتی ہے ۔۔ سید عارف سعید بخاری

حضرت بی بی فاطمہ کا فرمان ہے کہ ”ماں” کے پیروں سے لپٹے رہو ،اس لئے کہ جنت انہی کے پیروں کے نیچے ہے” بیشک! ماں دنیا کی وہ عظیم ہستی ہے جس کااشرف المخلوقات میں مقام بہت ہی بلند و بالا ہے۔” ماں” قدرت کا وہ انعام ہے جس کی دعاؤں کے طفیل انسان کامیابیوں اور کامرانیوں کی منازل طے کرتا ہے ۔ اولاد اس مادّہ پرستی کے دور میں ”ماں” کی اس طرح خدمت سے عاری نظر آتا ہے جو ”ماں ” کا حق ہے کیونکہ ماں محد سے لحد تک اپنے بچوں پر اپنا دست شفقت برقرار رکھتی ہے ۔ دنیا کا ہر مذہب ماں کی عظمت کو تسلیم کرتا ہے ۔سردی ہویا گرمی ، بھوک ہو یا پیاس ۔سخت سے سخت تکلیف دہ حالات اور مصائب وآلام میں بھی ہر ”ماں” کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اُس کے بچوں کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے ۔ ماں خود بھوکی پیاسی رہتی ہے مگر اپنے بچوں کو کبھی بھوکا نہیں سونے دیتی ۔ بد نصیب ہوتی ہے وہ اولاد جیسے اپنی زندگی میںاپنی ماں کی خدمت کی اللہ توفیق نہیں دیتا اور مرنے کے بعد ”ماں” کی قبر پر معافی کا طلبگار ہوتا ہے ۔۔رب کائنات نے ماں کی عظمت کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ہم میںسے اکثر لوگ ان احکامات سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔اس کے باوجود ان پر عمل کرنے میں تساہل پسندی سے کام لیتے ہیں
ماں سراپا محبت، اللہ تعالیٰ کی انمول نعمت ہے۔اسلام نے ماں کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معلوم کیا گیا کہ ماں کے اولاد پر کیا حقوق ہیں تو آپۖ نے فرمایا ”اُن کا نام نہ لو، اُن کے آگے نہ چلو، اُن کے آگے نہ بیٹھو، اُن کے آگے بدکلامی نہ کرو”۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے۔ وہیں اللہ ربّ العزت فرماتے ہیں۔ ”تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ، اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ گئے ہیں تو انہیں’ اُف ”تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو”۔
ماں کی طرف محبت بھری نگاہ سے دیکھنابھی ایک حج کے ثواب کے برابر ہے۔ ماں کی نافرمانی کرنے والے کی معافی نہیں ،اس کودنیا میں بھی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی اس کی بخشش نہیں ہو گی ۔۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ”ماں باپ کی بددُعا سے بچو کیونکہ وہ بادلوں کو پھاڑ کر مقبولیت کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے اور والدہ کی بد دعا تو تلوار سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ والدہ سے بدتمیزی کرنے والا گناہ کا مرتکب ہے یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی معافی نہیںہوگی ۔
ماں کے ا ولاد پربے پناہ احسانات ہوتے ہیں،کوئی انسان ان کا شمار نہیں کر سکتا اور اگر اولاد اپنی ساری زندگی ان احسانات کا شکر ادا کرتی رہے تو بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا ”یارسول اللہ! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا ”تیری ماں”پوچھا پھر کون؟ فرمایا ”تیری ماں”تین بار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد ہوا ”تیرا باپ”۔
دنیا میں کامیاب و کامران بیشتر خواتین و حضرات کے پیچھے ماؤں کی دعائیں شامل ہیں ۔ماںعقل وشعور کی پہلی درسگاہ، خلوص کا سر چشمہ اور ایسا باغ جہاںہر وقت اولاد کے لیے پھولوں کی پتیوں کی طرح نرمی ہی نرمی ہے۔ ماں وہ ہستی ہے کہ جس کی پیشانی پر نور، آنکھوں میں ٹھنڈک، باتوں میں محبت، دل میں رحمت، ہاتھوں میں شفقت، قدموں میں جنت اورجس کی آغوش میں دنیا کا سکون رکھ دیا ہے۔ ماں کی عزت وتکریم کا حکم اس حد تک دیا گیا ہے کہ اگر وہ اولاد سے سخت اور تکلیف وہ رویے بھی اپنائے تو اولادکی زبان سے لفظ” اف ”تک نہ نکلے کیونکہ یہ رویہ بھی ماں کے مرتبے کے خلاف اور بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آنا، ان کے ساتھ گستاخانہ رویہ رکھنا یا بدسلوکی کرنا سختی سے منع ہے اور اس عمل سے اللہ ناراض ہوتا ہے ۔
ماں کائنات کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ ماں کے بغیر انسان کی حیثیت اس شاخ کی سی ہے جو زمانے کی تیز ہواؤںکے سامنے ٹھہر نہیں سکتے
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام ماؤں کو سلامت رکھے تاکہ کوئی بھی انسان ماں کی آغوش، اس کی نصیحتوں، اس کی دعاؤںاور اس کی بے لوث محبت سے محروم نہ ہو۔اوررب کائنات اولاد کو بھی یہ توفیق اور ہمت دے کہ وہ اپنی اپنی ماؤں کی عزت وتکریم اور خدمت کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔بقول شاعر
چلتی پھرتی ہوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ہے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ہے ماں دیکھی ہے
آج میری والدہ محترمہ کو ہم سے جدا ہوئے پانچ برس بیت گئے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ جیسے کل ہی کی بات ہو۔آج ہمیں حاصل ہر نعمت اور سہولت حتی ٰ کہ رہنے کیلئے جو چھت میسر ہے وہ بھی میری ماں کی ہم سے محبت اور شفقت کا انعام ہے ۔واقعی ہماری ماں عظیم تھیں ،انہوں نے ہمارے سکھ کیلئے اپنی زندگی کا سکون برباد کیا ۔اپنا پیٹ کاٹ پر ایک ایک پیسہ پس انداز کرکے ہمارے لئے ایک گھر بنایا جہاں ہم عزت سے زندگی گذار رہے ہیں اور کسی کے محتاج نہیں ہیں ۔
وہ آج ہم میں نہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ وہ آج بھی ہمارے لئے دعا ضرور کرتی ہوں گی ۔آج اتوار26جون 2022 ء والدہ محترمہ کی پانچویں برسی کے سلسلے میں دعائیہ تقریب ان کی رہائش گاہ پر ہو گی ،اس موقع پر قرانی خوانی ہو گی ،آخر میں دن گیارہ بجے مرحومہ کی مغفرت و بلندی درجات کیلئے اجتماعی دعا ہو گی۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ محترمہ کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔آمین۔ بقول شاعر
آخر میں سید ظافر گیلانی کا شعر پیش خدمت ہے
طلب جنت کی ہے مجھ کو یہ میرا خواب ہے مولا
مرا دل ماں سے ملنے کو بہت بیتاب ہے مولا

شیئر کریں

Top