مری کا سیاحتی نوحہ……تحریر……ممتازعباس شگری

یاکوتسک دنیا کا سرد ترین شہر ہے ، جہاں پارہ ـ50 °F تک گر جاتا ہے۔ فروری 1987 میں اس نے اپنا سب سے کم درجہ حرارت -83.9 °F پر رپورٹ کیا۔یہ شہر سخا صوبے کا دارالحکومت ہے جو روس کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شہر لینا ندی کے کنارے واقع ہے اور سردیوں میں دریا جم جاتا ہے۔ یہ مسلسل پرما فراسٹ میں واقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یاکوتسکشمالی نصف کرہ کی سب سے زیادہ جنوبی سرحد پر واقع ہے جہاں زمین مسلسل پرما فراسٹ یا برفانی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔کوسکس کی طرف سے 1632 میں قائم کئے گئے اس شہر کو اصل میں یا تو Lensky جیل یا Yakutsk جیل کہا جاتا تھا۔روسی دارالحکومت ماسکو اور یاکوتسک کے درمیان فاصلہ 8,468 کلومیٹر ہے۔ شہر بڑی حد تک لینا ہائی وے سے جڑا ہوا ہے۔یاکوتسک میں سوویت دور کے کئی تھیٹر، عجائب گھر اور پرانے گھر بھی ہیں۔ سالانہ Ysyakh سمر فیسٹیول جون میں آخری ہفتے کے آخر میں ہوتا ہے۔ اس وقت یاکوتسک کی آبادی 250,000 سے زیادہ ہے۔ یاکوتسک شہر جدید اونچی عمارتوں، اپارٹمنٹس کے سوویت ٹائم بلاکس اور لکڑی کے پرانے مکانات کا مرکب پیش کرتا ہے۔ یہ شہر پرما فراسٹ پر بنایا گیا تھا، جو سینکڑوں میٹر گہری منجمد مٹی کی ایک تہہ ہے جو کبھی نہیں پگھلتی ہے۔ زیادہ تر تعمیرات سلٹ پر ہیں تاکہ عمارتوں کی گرمی نیچے کی
تہوں کو نہ پگھلے۔ سردیوں میں یاکوتسک ”مسکن” دھند میں چھایا ہوا ہے، جب ہوا اتنی ٹھنڈی ہوتی ہے کہ گھروں، لوگوں اور گاڑیوں سے گرم ہوا نہیں نکل سکتی۔ سردیوں میں جب درجہ حرارت ـ40C سے نیچے آجاتا ہے تو شہر کی گلیوں میں چہل قدمی کرنا اچھا خیال نہیں ہے۔ لیکن آپ یاکوتسک کے عجائب گھروں یا تھیٹروں میں سے کسی ایک کا دورہ کرکے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اہم پرکشش مقامات میں نیچرل ہسٹری میوزیم شامل ہے، جو خطے کی تاریخ، انسان اور نباتات اور حیوانات دونوں کا احاطہ کرتا ہے، اگر آپ سردیوں میں یاکوتسک آنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ کو ممکنہ حد تک کھال کی ٹوپیاں، اونی اسکارف، مٹن، گرم جوتے، موسم سرما کے کوٹ اور گرم ترین کپڑے لینے چاہئیں ـ ۔ مقامی لوگ کھال کے لمبے کوٹ پہنتے ہیں، قطبی ہرن کی کھال کے جوتے موٹے تلووں کے ساتھ، کھال کی ٹوپیاں پہنتے ہیں۔ دسمبر، جنوری اور فروری میں سرد ترین مہینوں میں درجہ حرارت ـ50C سے نیچے گر سکتا ہے۔طلباء یونیورسٹی کے رہائشی ہالز (ڈارمیٹریز) میں دو کے لیے فرنشڈ کمروں میں رہتے ہیں جن میں شاور، لانڈری اور کچن کی سہولیات ہیں۔ یونیورسٹی میں ایک سماجی مرکزہوتا ہے جہاں طلباء کے مختلف میلے، محافل موسیقی اور مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔ انڈور کھیلوں کے لیے اچھی سہولیات ہیںاور وہاں کے لوگ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جی رہے ہیں، حکومت ان کو ہر طرح کی سہولیات بھی فراہم کرتے ہیں ،وہاں سیاحوں کا رش بھی ہوتا ہے، حکومت ان کی دیکھ بال کے لیے خصوصی انتظامات کر لیتی ہے۔
لیکن ہمارے ہاں کچھ دن پہلے مری کا سیاحتی نوحہ آپ کو یاد ہی ہو گا، ملک میں بارش اوربرفباری کا سلسلہ شروع ہوتے ہی لوگوں نے سیاحتی مقامات کا رخ کرنا شروع کیا، ایک لاکھ تیس ہزار گاڑیاں مری کی طرف روانہ ہو گئی، 8جنوری کو ایک لاکھ تیس ہزار گاڑیاں مری میں داخل ہو گئیں، جبکہ پورے مری میں تین ہزار سے زیادہ گاڑیوں کی گنجائش ہی نہیں تھی، لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر وفاقی وزیر کی طرف سے سماجی ویب سائٹ پر ٹویٹ بھی سامنے آیا، کہ لوگوں کا جوق در جوق مری کی طرف نکلنا نئے پاکستان کی نوید اور ترقی کی علامت ہے، لیکن انہیں نہیں پتہ تھا آگے کیا ہونے والا ہے، تمام سیاح مری میں داخل ہو گئے، رات بھر جم کر برف باری ہوئی اور راستے بلاک ہونا شروع ہو گئے، ٹھنڈ بڑھ گئی لوگ گرم جگہوں کی تلاش میں پھرنے لگے سیاحوں نے ہوٹلوں کا رخ کیا، ہوٹل مالکان نے چائے 500روپے ابلا ہوا انڈا 300، کھانا تین ہزار سے چار ہزار روپے کا کر دیا۔ ہوٹل میں کمرے کی قیمت 30ہزار سے 40ہزار تک پہنچ گئی۔ اب سیاحوں کے پاس ایک ہی حل تھا، اپنی اپنی گاڑی میں آرام کر لیں۔ سیاح فیملی کے ساتھ تھے، ہر کوئی اپنی اپنی گاڑی کو رہائش گاہ بنانے لگے ، گاڑی کی ہیٹر جلائے دروازے بند کرکے سونے لگے، رات اللہ اللہ کرکے گزر گئی، صبح جب دیکھا تو سیاحوں کی گاڑی میںا ٹھارہ افراد مردہ پائے گئے، جو کہ بعد میں بائیس تک جا پہنچی، ٹی اسکرین حرکت میں آنے کی دیر تھی حکومت کی آنکھ بھی کھل گئی ۔ لوگوں کی لاش اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، لوگوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ چوبیس گھنٹہ پہلے سوئی ہوئی حکومت جاگنے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔ پاک فوج کو حکم نامہ جاری ہوا مری میں سیاحوں کی مدد کی جائے، فوج اس دور جدید میں بھی بیلچے اٹھا اٹھا کر راستے صاف کرنے لگے۔ آپ یقین کرلیں اس دورمیں بھی ہمارے پاس برف ہٹانے کے لیے کوئی مشین نہیں تھی۔ بائیس لوگوں کی لاشیں اٹھانے کے بعد راستے کھل گئے، لوگ گھروں کو روانہ ہوئے
ہمارا المیہ ہے ہم کسی بھی سانحے کے بعداس کے حل کی جانب راہ تلاش کرتے ہیں ، مری میں بھی سانحہ پیش آنے کی دیر تھی انتظامیہ جاگ اٹھی ، منافع خوروں کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا۔ لیکن کیا اس کریک ڈاون سے سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے، بالکل نہیں،کیوں؟ کیونکہ یہ لوگ کچھ دن بعد باہر آئیں گے دوبارہ ہوٹلز بحال کریں گے، سیاح پھر سے پس جائیں گے۔ اگر حکومت واقعی میں سیاحوں سے مخلص ہے تو انہیں چند ایک کام کرنے ہوں گے ، یقین کرلیں سیاح دل کھول کر دعا دیں گے ، اور مری کی سیاحت کو خوب پذیرائی ملے گی ، حکومت سب سے پہلے ہوٹلوں میں ہر چیز کی ریت لسٹ آویزاں کرکے پابند بنایا جائے کہ ہر شہری اس لسٹ کے تحت ہی رقم ادا کریں گے، ساتھ ہی ہیلپ لائن وضع کریں تاکہ کسی بھی ہیرا پھیری کی صورت میں اطلاع دے سکیں اوراور انتظامیہ اس پر ایکشن لیں۔سیاحوں کے لیے حتیٰ الامکان حکومتی ریسٹ ہاوس اوپن کیے جائیں، مری آنے جانے والے سڑکوں پر نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ کی مدد سے مشینری تعینات کیے جائے تاکہ برف باری کی صورت میں فوری صاف کیے جا سکیں ۔آپ اگریہ کام کرلیں گے تو یقین کر لیں آپ کی ہر طرف واہ واہ ہوں گے ورنہ دوسری صورت میں منافع خور سیاحوں کو لوٹیں گے، شہری سڑکوں پر برف ڈال کر سیاحوں کی گاڑی کو پھسلائیں گے، پھر نکالنے کے 5ہزار لیںگے اور مری کا سیاحتی نوحہ ہر کسی کے زبان پر ہوگی ۔

 

 

شیئر کریں

Top