مطمئن زندگی کے لیے یقینی اور قیمتی راز

بے شک دلوںکو اطمینا ن اللہ کی یاد سے ملتا ہے۔ (القرآن)
یہ کائنا ت جب سے وجود میں آئی ہے انسان خوشی اور غم کے ملے جلے لمحات سے گزر تا آرہا ہے ۔ وہ کبھی بہت زیادہ خوش ہو جاتا ہے اور کبھی غم میں مبتلا ہو جاتا ہے۔جب کچھ مرضی کا پاتا ہے تو خوش ہوتا ہے، لیکن افسوس اس پر اپنے اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا۔ وہ یہ بھو ل جاتا ہے کہ خوشی تو عارضی ہوتی ہے۔اسی طرح جب غم آتا ہے توبھی وہ سبق نہیں لیتا ،جبکہ غم بھی عارضی ہوتا ہے۔ یہ دوکیفیا ت روزِ اول سے انسان کا تعاقب کر تے ہوئے ساتھ ساتھ چلتی آرہی ہیںاور قیامت تک چلتی رہیں گی۔ لیکن! ان دونوں کیفیات کے اوپربھی ایک درجہ راج کرتا ہے اور وہ اطمینان کا درجہ ہے ۔ جو لوگ مطمئن ہوتے ہیں، وہ شکر گزار ہوتے ہیں، عاجزی اختیار کرتے ہیں، خوش بھی رہتے ہیں اور غموں کی بالکل بھی پروا نہیں کرتے کیونکہ ایک روحانی طاقت ہر وقت ان کو اپنی رحمت کے حصار میں لیے رکھتی ہے۔یہ ان کے یقینِ کامل کا ثمراور انعام ہوتا ہے۔ آج ہم مطمئن ہونے کے کچھ ان راز وں کا ذکر کریں گے جو بندہ عاجز نے اپنائے اور کچھ پایا۔ لیکن پہلے ہم یہ جانیں گے کہ آخر ہم مطمئن کیوں نہیں ہو پاتے۔اِس کا جواب اور سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم سرکارمدینہ ﷺ کی زندگی سے دُوراور نا واقف ہیں ۔ اسی طرح ہم سب اللہ کی یاد سے غا فل ہیں لیکن پھر بھی ہم سمجھ نہیں پاتے ۔ ہماری لا حاصل ، غیر ضروری اور عارضی خواہشات ، ہمارے اوپر سوار ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم بے چینی، سر درد، ٹینشن اور depressionجیسے امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔مطمئن ہونے کے لیے اللہ پاک کے ذکر کو معمول بنانا بہت ضروری ہے ۔ اللہ کے ساتھ دل لگائیں ۔ اللہ پاک خودقرآن میں فرما تا ہے کہ دلوں کا اطمینان تو اسی (اللہ) کی یاد سے ملتا ہے۔ ہمیں اپنی خوش نصیبی پر رشک کرنا چاہیے کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں تو وہ اتنا بڑا رب اور تمام کائنات کا خالق و مالک ہونے کے باوجود بھی ہم جیسے حقیروں کو یاد کرتا ہے۔ کیا یہ ہمارے لیے نعمت، انعام اور اعزاز سے کم ہے ؟ اگرہم صرف یہی سوچیں اور سمجھیںکہ ہماری تو اصل میں اللہ سے ملاقات ہو رہی ہے کہ ہم اس کو یاد کریں وہ ہمیں یاد کرے، پھر دنیا کے بے حص لوگوں سے ہمیں امید یں باقی نہ رہیں ۔ اللہ کی یاد میں وقت گزاریں۔نماز قائم کریں۔ اس سے چہرے پر رونق بھی آئے گی اور خوبصورتی و تروتازگی بھی۔ اللہ پر یقینِکامل رکھیں۔دن اور وقت پھرنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگتی۔ آپ کواپنے سروں پر بٹھانے والے، جن کے ساتھ آپ اخلاص کا مظاہر کرتے ہیں، وہی جب آپ کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیںتو آپ کو بہت تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے۔ دراصل، انہوں نے آپ سے مطلب کا تعلق رکھا ہو تا ہے اور چہرے پر نیک بننے کا ماسک لگا رکھا ہوتا ہے ، اندر سے وہ جھوٹے اور غیر مخلص لوگ ہوتے ہیں۔آپ ویسے ہی خوش ہو رہے ہوتے ہیں ۔ حالانکہ ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ اپنی عارضی خواہش کے پورا نہ ہونے پر مشکلات اور بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور آنے والی بڑی خوشیوں کو صحیحenjoyنہیں کر سکتے کیونکہ آپ alreadyاپنی توانائیاں اور کوششیں ، فضول اور لا حاصل چیز کے تعاقب میں لگا کر مریض بن چکے ہوتے ہیں ۔اب ایسے میں آپ کو کوئی رستہ نظر نہیں آتا جبکہ آپ کو کسی ہمدرد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں آپ کے پاس دوs optionہوتے ہیں یا تو اس conditionسے نکل کر نایاب انسان بن کر دنیا کے سامنے ابھریںاور ہمیشہ کے لیے امر ہو جائیں یا پھر پریشیانیوں کی دلدل میں دھنستے جائیں اور فنا ہو جائیں۔ اکثر casesمیں ہم پریشانیوں میں ہی دھنستے چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا، جو آپ اور ہم لو گوں کی پہلی غلطی ہے کہ ایسے لوگوں سے امیدیں لگا لیتے ہیں ، کسی سے بھی امیدیں وابستہ نہ کریں کیونکہ یہ بات سمجھ لیں کہ غریب اور کمزور کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ اللہ سے دوستی لگائیںکیونکہ وہ سب کا ہے ۔ انشاء اللہ! محتا جی نہیں رہے گی۔لوگ آپ کے محتاج ہو جائیں گے۔ یہ میں نے دیکھا ہے۔ اسی طرح کامیاب اور خوبصورت زندگی گزارنے کے لیے آمنہ کے لالﷺ کی غلامی ہم سب پر فرض اور بے حد ضروری ہے۔جب ہم آپؐ کے ساتھ سچی محبت کریںگے ۔تو کامیابیاںہمارے قدم چومیں گی۔ہمیں مشکل وقت میں چھوڑنے والے، ہمارے محتاج ہو جائیں گے۔ زمانہ ہماراگرویدہ ہونا شروع ہو جائے گا۔ دنیا میںہمارا نام ہو جائے گا۔ اپنے پیارے آقا ؐ سے پیار کر کے تو دیکھیں، رب کعبہ کی قسم ، میرے آقا کریم ؐ نہ صرف آپ کو پہچان دیں گے بلکہ آپ کو راضی کر دیں گے۔ اللہ تعالیٰ بھی قرآن پاک میں فرماتا ہے کہ آپؐ مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ پھر ہم ایسے پیارے کریم آقا ؐ کواپنے دِلوں میں کیوں نہ بسائیں جو ہمیں ایک پل بھی نہ بُھو لے ؟ شاعر نے کیا خوب کہا۔
وہ مومنوں کی تو جانوں سے بھی قریب ہوئے
کہاں سے کس نے پکارا حضورؐ جانتے ہیں۔
اطمینا نِقلب و دماغ کا رازہم واصف علی واصفؒ کے اس ever greenاور مشہور و معروف قول سے بھی لے سکتے ہیں جس میں وہ بہت خوب فرماتے ہیںکہ “خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے”۔ یہ فلسفہ جو بھی سمجھ گیا وہ کبھی زندگی میں مشکلات اور نا شکری کا شکار نہیں ہو سکے گا۔بندہ عاجزاپنی ذاتی عملی زندگی سے بھی رازِ اطمینان کا ذکر کرنا چاہتا ہے۔ مجھے مختلف قسم کی خواہشات تھیں۔ہر وقت ذہن میں الجھنیں اور پریشانیاں سوار رہتی تھیں۔ دل بھی اداس اور اُچاٹ رہتا تھا۔ سر درد بھی رہتا تھا۔ مختلف غیر مخلص لوگوں سے امیدیں وابستہ تھیںک۔ جب ان لوگوں نے دھوکہ دیا، جھوٹ بولے، اور ساتھ چھو ڑ ا،اس وقت افسوس ہوا لیکن شکر ہے اِتنی دیر نہیں ہوئی تھی۔اللہ کا کرنا، اسی دوران میں واصف صاحب کا مذکورہ بالا جملہ دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ اس جملے نے میری زندگی کے مسئلے حل کر دیے۔ اب میں خلوص سے اپنی کوشش کرتا ہوں، resultاللہ پر چھوڑ دیتا ہوں۔ انسانوں سے امید نہیں رکھتا، requests کرنا چھوڑ دیں، اپنے کام سے کام رکھنا شروع کر دیا، زندگی میں اطمینان محسوس ہونے لگا ۔ ایسے لگا جیسے زندگی تو گل و گلزار ہو گئی ہے، ذہنی سکون ملنا شروع ہو گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے غیب سے چیزیں عطا ء ہو نا شروع ہو رہی ہیں۔ اب دنیا کے عارضی so calledبڑے لوگوں کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی۔خواہشات تو پہلے بھی کم ہی تھیں اب مزید عقل آگئی۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ سرکار مدینہ ؐ ہر پل ساتھ ہیں اور اس کے علاوہ کوئی روحانی طاقتیں واصف علی واصفؒ کی شکل میں اور ان کے مریدو شاگرد خاص (میرے بابا جی) کی شکل میں ہر وقت میرے ساتھ ہے۔
ایک اور خوبصورت چیز جو میں نے سیکھی وہ یہ کہ جو آپ کو ملا ہے، اس پر اللہ کے شکرگزار رہیں۔ اگر آپ کا کوئی مقصد ہے اور وہ مل جائے تو آپ کی خوش نصیبی، اس پراللہ کا شکر ادا کریں۔ اور جو نہیں ملا، اللہ کاپھر بھی شکر ادا کریںکیونکہ اللہ بہتر حکمت والا ہے اور ہماری خواہشات بے مقصد اور عارضی ہیں ۔ اللہ کے آگے مزید جھک جائیں کہ جو آپ کے لیے صحیح نہیں تھا وہ چیز اللہ نے آپ کو عطا نہیں کی۔ یہ بھی تو نعمت ہی ہے نہ۔ اس سے آپ کو اطمینان ملے گا۔ رشوت اور سفارش وغیرہ سے ہو سکتا ہے آپ کو وہ مقصد پورا ہو جائے لیکن وہ عارضی خوشی ہو گی، ہمیشہ کا اطمینان نہیں۔ ہمیشہ کا اطمینان اللہ کی مرضی اور رضا میں ہے۔ اطمینانِ زندگی کے لیے یہ بات ہمیشہ noteکر لیں کہ جو لوگ آپ کو حالات اور واقعات کے مطابق مشکلوں میں چھوڑ دیں، ایسے لوگوں کے ساتھ رہنے سے تنہائی بہتر ہے۔ زندگی سکھی ہو جائے گی۔بندہ عاجز نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ میں اپنے ارد گرد ظلم اور حق تلفی دیکھ کر تنگ آجاتا ہوں، اور بہت مشکل سے اس میں سے نکلتا ہوں اس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ “بس! کسی بھی مشکل کو سر پر سوار نہ کریں۔ دوسروں کی مشکل حل کیا کریں، اپنی مشکلات خود بخود حل ہو جاتی ہیں۔ کسی کے عمل کا فوری ردِ عمل نہ دیں، بلکہ ردِ عمل بالکل نہ دیں، یعنی اپنے رد عمل کو رَد کر دیں۔ اس سے آپ کے اندر ایک دانائی پیدا ہو جائے گی۔ مشکل واقعہ ایک بادل کی طرح ہوتا ہے، آتا ہے اور چلا جاتا ہے، کبھی برس پڑتا ہے، کبھی برسے بغیر چلا جاتا ہے۔ جس طرح بادل کا آنا اور جانا سراسر ہوا کا محتاج ہے، اور ہوا اس کے حکم سے چلتی ہے، اس طرح مشیت کے ہوائیں چل رہی ہیں ہر طرف، کسی مشکل کا آنا اور پھر نکل جانا مشیتِ الٰہی پر موقوف ہے، آپ کی تدبیر پر نہیں۔ اس لیے پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں۔آپ کیلیے دعا یہ ہے کہ رب تعالیٰ آپ کو صبر کے مفہوم سے آشنائی دے۔ جسے صبر مل گیا اس کیلئے کوئی مشکل مشکل نہ رہی، بلکہ مشیت آشنائی کا ایک مضمون کھل گیا۔ مجھے یقین ہے کہ اس تحریر سے میرے سمیت بہت سے لوگوں کا فائدہ ہو گا۔جناب واصف ؒ کے ایک خوبصورت قول سے تحریر کا اختتام کروں گا جواطمینا نِزندگی کا بخوبی احاطہ کرتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ “جب عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے، رنج و راحت اللہ کی طرف سے ہے، دولت اور غریبی اللہ کی طرف سے ہے ، زندگی اور موت اللہ کی طرف سے ہے، تو ہمارے پاس تسلیم کے علاوہ کیا رہ جاتا ہے؟
عمران محمود

شیئر کریں

Top