نفس اورقفس

محمد ناصر اقبال
رزق کی طرح عزت اورذِلت بھی رزاق کے دائرہ اختیار میں ہے۔رزاق کے ہاںسے تو انسانوں اورحیوانوں کارزق وافرمقدارمیں آتا ہے مگرانسان کے روپ میں کچھ شیطان مسلسل دوسروں کارزق اورحق غصب کررہے ہیں ۔ جس طرح اشرافیہ کے مذموم ”اِرادوں” سے “ناداروں” کیلئے زندگی مزید دشوارہوگئی ہے اس طرح طاقتور خودسے کمزورانسانوںکااستحصال اورانہیںرسواکرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔میں حیران ہوں آدم زاداپنے معبود بر حق کامحتاج ہوتے ہوئے بھی دوسروں کی تقدیربگاڑنااوران کی توقیرپرحملے کرنااپناحق کیوںسمجھتا ہے۔ہمارے ہاں بیشتر لوگ عزت اورشہرت میں فرق نہیں کرسکتے بلکہ ایک طبقہ تو شہرت اورثروت کو عزت سے زیادہ اہم سمجھتا ہے،ہمارے لوگ مذاق مذاق میں اداکارہ میرا سمیت ناصرمدنی کی دکانداری چمکا رہے ہیں ۔عزت وعظمت انسان کے منصب یااس کی دولت اورطاقت سے مشروط نہیں ہے ورنہ معاشرے میں کسی سفیدپوش کی کوئی عزت نہ کرتا ۔پاکستان کے انتھک معمار جنرل (ر)ایوب خان نے اپنے دورآمریت میں جس وقت مٹھی بھر افرادکو گالی دیتے سناتوانہوں نے فوری اقتدار چھوڑ دیا تھا مگر آج بھی ان کانام عزت سے لیا اورانہیں دعاؤں میں شامل کیا جاتا ہے۔آپ کویادہوگا پرویز مشرف کے آمرانہ دباؤ کے باوجود عدالت عظمیٰ کے سابقہ چیف جسٹس افتخارچوہدری کاآبرومندانہ” اِنکار ”موصوف کیلئے ۔”سرمایہ افتخار” بن گیاتھا۔پرویزی آمریت کیخلاف مزاحمت کے نتیجہ میں افتخارچوہدری کوجوعزت،شہرت اورطاقت ملی وہ قابل رشک تھی۔اُس کی حمایت میںجوتحریک چلی اس کے ثمرات سے صرف کالے کوٹ والے نہیں بلکہ خودساختہ جلاوطنی سے واپس آنیوالے سیاستدان بھی مستفیدہوئے پھر افتخار چوہدری اپنے منصب پربحال مگرعزت سے محروم اورگمنام ہوگیا کیونکہ اس نے سائلین تودرکنار اپنے منصب کے ساتھ بھی “انصاف” نہیں کیا تھااور آج وہ سیاسی طورپر کسی گنتی میں نہیں ہے۔پرویزی آمریت کے سیاہ دورمیں پاکستا نیوں کے محسن ومحبوب ڈاکٹرعبدالقدیرخان جو خودایک چلتا پھرتا”عہد “ہیں ،بیرونی دباؤ پران سے” عہدہ” چھین لیا جبکہ ان کی سرگرمیوں کومحدودکردیاگیامگر عوام ماضی کے مقابلے میں آج ان کی زیادہ عزت کرتے ہیں بلکہ ایٹمی پاکستان کے معمار ڈاکٹرعبدالقدیرخان سے والہانہ محبت اوران کی عزت کرنا پاکستانیوں کے نزدیک ایک بیش قیمت سعادت ہے،صدیق الفاروق سمیت بیسیوں” بونوں” کی ہرزہ سرائی کے باوجود ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے وقاراورکردارپرآنچ نہیں آسکتی۔منصب ڈاکٹر عبدالقدیرخان کا محتاج تھا ،مادروطن کے معماراورمحسن کو عزت کیلئے کسی منصب کی ضرورت نہیں۔عمران خان کنٹینر پرتھا تواس کے پاس بے پایاںعزت تھی وہ پاکستانیوں کی واحدامید تھا آج وہ تخت اسلام آبادپربراجمان ہے مگرکپتان کادامن عزت سے خالی ہے ۔عوام کاوزیراعظم سے اظہار بیزاری اب نفرت میں تبدیل ہوگیا ہے ، میں حلفیہ کہتا ہوںاحساس محرومی کے مارے لوگ اسے سرعام گالیاں دیتے ہیں ۔
پچھلے دنوں پنجاب پولیس کے سابقہ پروفیشنل اورباوقار آئی جی شعیب دستگیر اصولی بنیادوں پرسی سی پی اولاہور عمر شیخ کوہٹاتے ہٹاتے نادان کپتان کی ہٹ دھرمی کے نتیجہ میںخود ٹرانسفر ہوگئے لیکن منصب سے محرومی کے باوصف ان کا اپنے آفیسرز اوراہلکاروں کے ساتھ ساتھ شہریوں میں بھی ا حترام مزیدبڑھ گیا جبکہ سی سی پی او عمر شیخ منصب پربرقرارہوتے ہوئے بھی اپنی بچی کھچی عزت سے محروم ہوگیا بلکہ سانحہ موٹروے کے سلسلہ اس کے ناپسندیدہ ”خیالات” سے موصوف کیلئے “حالات” مزید بدتر ہوگئے ۔قومی اورسوشل میڈیا پر عمر شیخ کامحاصرہ اورمحاسبہ کیا گیا اگر اس میں عزت نفس ہوتی تووہ خود منصب چھوڑدیتا۔جس آدم زادے میں عزتِ” نفس” نہ ہواس کاوجود اس کی بیمارروح کیلئے ایک” قفس”کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ کسی انسان کا”رکھ رکھاؤ”کس طرح کاہے اِس بات کافیصلہ اُس کی طرف سے الفاظ کے “چناؤ” اوردوسروں کے ساتھ اُس کے” برتاؤ” سے ہوجاتا ہے،عمر شیخ قوم کادل چھلنی کرنے کے بعد اب معافی مانگ رہا ہے، محض معافی سے ہرخطاء کی تلافی نہیںہوسکتی ۔تعجب ہے عمر شیخ کے بارے میں ایک سرکاری ادارے کی تحریری رپورٹ لیک ہونے کے باوجودپی ٹی آئی کے مٹھی بھر لوگ اس کادفاع کررہے ہیں،کیا ان کے اندرضمیر نہیں ہے ۔عمر شیخ کے اندازِبیاں سے وہ بھی پی ٹی آئی کاکوئی عہدیدار لگتا ہے ۔جس طرح مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی میں کئی ایک عہدیدار” بدعنوان” ہیںاس طرح پی ٹی آئی کے متعدد لوگ “بدزبان” ہیں۔کپتان مردم شناس اورنبض شناس نہیں ورنہ تخت لاہور کیلئے پنجاب کے گیارہ کروڑ عوام میںسے عثمان بزداراُن کاحسنِانتخاب ہرگز نہ ہوتا،جس نے ستمبر 2020ء میںپو چھا ،کیا ہینڈفری کے دونوں طرف سے آوازآتی ہے۔پنجاب کوایک زیرتربیت منتظم کے” سپرد”کرنا گیارہ کروڑ عوام کو”سپردخاک” کرنے کے مترادف ہے ۔اس طرح پنجاب پولیس کے مستعد ،نیک نام،سینئر اورپروفیشنل آفیسرز کے ہوتے ہوئے کپتان کا ناکام اوربدنام ڈی آئی جی عمر شیخ کوسی سی پی اولاہور تعینات کرنا جس کوانہوں نے دوماہ قبل ترقی کے قابل نہیں سمجھا تھاایک المیہ ہے ۔ “آمران خان” کے فیصلے بتارہے ہیں،”پاکستان میں جمہوریت نہیںہے” ۔ کپتان نے اقتدار کیلئے اقدار کورونددیا،موصوف وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پنجاب کو”بدل” نہیں رہے بلکہ بزداراورعمر شیخ کی صورت میں اس سے کسی بات کا” بدلہ” یعنی انتقام لے ر ہے ہیں ۔
معاشرے کے مختلف طبقات تبدیلی سرکار سے بیزار ہیں۔ کوئی طبقہ حکومت پراظہاراعتماد اوراسے مزید مہلت دینے کیلئے تیار نہیں۔تبدیلی کے نام پرعوام کی محرومیوںکامذاق اڑانے والی حکومت کی تبدیلی ناگزیر ہے۔عوام کے اندر عدم اطمینان اوراضطراب دیکھنے کے باوجود حکمرانوں کی مجرمانہ روش نہیں بدلی۔افسوس حکمران “رانگ نمبر” کوشناخت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ قومی سیاست کے چلے ہوئے کارتوس اور نااہل آفیسرز تبدیلی سرکار کاہراول دستہ ہیں ۔عمران خان نے دانستہ طورپرعمر شیخ کی صورت میں دوسرا بزدار پنجاب پولیس پر مسلط کردیا ہے۔عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے گذشتہ دنوں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں خطاب کرتے ہوئے جوکچھ کہا ا ن کی باتوں سے پاکستان کاہرباشعوراورباضمیر فردمتفق ہے ۔ موٹروے پرمعصوم بچوں کے روبروان کی ماں کی آبروریزی نے پاکستان میں صف ماتم بچھا دی ہے۔خواتین اوربیٹیوں کیلئے کوئی جائے اماں نہیں ہے ، صرف شاہراہوںپران کی عزت کیلئے خطرات نہیں بلکہ وہ تو شہروں اورچاردیواری کے اندر بھی محفوظ نہیںہیں۔
بیشک عورت کو محرم کے ساتھ آناجانا چاہئے لیکن ا ب توکئی” محرم” بھی “مجرم” بن رہے ہیں۔خون سفیدہوگیاہے،حقیقی رشتے رستے ہوئے زخم بن گئے ہیں ۔ وہ کوتاہ اندیش عناصر جو اسلامی سزاؤں پرتنقیدکررہے ہیں میری دعا ہے ان کے ہاں کسی خاتون کو اس طرح کے امتحان سے نہ گزرنا پڑے۔اسلام دین فطرت اوردین رحمت جبکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ سترماؤں سے زیادہ محبت فرماتاہے لہٰذاء اس معبود برحق نے اپنے بندوں کے درمیان دندنانے والے درندوں کیلئے جوسزائیں مقررکی ہیں ان سے انحراف میں انسانیت کیلئے بردباری نہیں بلکہ بربادی پنہاں ہے۔
پی ٹی آئی کی بیجا سیاسی مداخلت نے پنجاب پولیس کو”ناکارہ” اوراس کا”بٹوارہ” کردیاہے،اس وقت پنجاب پولیس میں دودھڑے ہیں ایک دھڑا قانون کی تحت امن وامان کیلئے کام کرناچاہتا ہے جبکہ انعام غنی اور عمر شیخ سمیت دوسرے دھڑے میں شامل آفیسر تبدیلی سرکار کی ڈکٹیشن پرحق نمک اداکرنے کیلئے کوشاں ہیں،انہیں عوام اورامن وامان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔افسوس تبدیلی سرکار نے پاکستان میں نظام کی تبدیلی کاخواب چکناچورکردیا ۔سیاسی اورانتقامی بنیادوں پرتبادلے تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔شعبدہ باز عمر شیخ کی ڈینگیں سن کر لگتا ہے وہ بھی اپنے کپتان سے کافی متاثر ہے ۔عمر شیخ کا موٹروے گینگ ریپ والے معاملے پرتوہین آمیز اوراشتعال انگیز بیان اوراس کاابھی تک منصب پربرقراررہنا قوم کی اس بدنصیب بیٹی کے ساتھ پیش آنیوالے سانحہ سے بڑاسانحہ ہے،اس نااہل سی سی پی اونے آبروریزی میں ملوث درندوں کوگرفتار کرنے کی بجائے خاتون کوکٹہرے میں کھڑاکرکے اس کامیڈیا ٹرائل شروع کردیا،اسے فوری منصب سے ہٹایاجائے۔ وہ ایک بوجھ ہے جس نے پنجاب پولیس کی کمرتوڑدی اوراس وقت 1500سے زائدشہیدوں کی وارث پنجاب پولیس کا کوئی والی وارث نہیں ۔انعام غنی کی آئی جی جبکہ عمر شیخ کی سی سی پی اولاہور کی حیثیت سے متنازعہ تقرری کے بعد پولیس فورس کامورال آسمان سے زمین پرآگیا ہے۔پنجاب پولیس کوسینئر ترین اور کلین ماضی والے کمانڈر جبکہ لاہورکوایک مستعد مگر معتدل پولیس چیف کی ضرورت ہے جو اپنے منہ سے آگ نہ اگلتا ہو ۔ تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے سندھ اورپنجاب سمیت چاروں صوبوں کی پولیس کوسیاسی مداخلت سے پاک کرنا ہوگا۔ سانحہ موٹروے کی شفاف تحقیقات کیلئے مقامی تھانے کے کسی باصلاحیت تفتیشی آفیسر کی خدمات کافی تھیں ،اگریہ کام حکام کی سرپرستی میں اسے کرنے دیاجاتا تواِس وقت وہ دونوں درندے معاشرے میں آزاددندنانے کی بجائے پس زنداں ہوتے لیکن اس میں وزیراعلیٰ سردارعثمان بزدار، آئی جی انعام غنی،سی سی پی اولاہورعمر شیخ سمیت متعدد صوبائی وزراء اورپولیس حکام کوجھونک دیا گیا اور پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس میں قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی ۔

شیئر کریں

Top