کراچی پولیس آفس پر کلیئرنس آپریشن مکمل، 3 دہشت گرد ہلاک، رینجرز اہلکار سمیت 4 شہید

123-602.jpg

کراچی: شہر قائد میں قائم کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کلیئرنس آپریشن مکمل کرلیا گیا، جس کے دوران رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد شہید جبکہ سیکیورٹی فورسز کی بھرپور جوابی کارروائی میں دو دہشت گرد فائرنگ کے تبادلے جبکہ ایک خود کش جیکٹ پھٹنے سے ہلاک ہوا۔

پولیس حکام کے مطابق کلیئرنس آپریشن کے دوران پولیس اور رینجرز اہلکاروں سمیت چار افراد شہید ہوئے جن میں سویلین خاکروب بھی شامل ہے جبکہ ڈی ایس پی ایس ایس یو سمیت 16 زخمی ہوئے، جن میں 6 رینجرز اہلکار اور ایک ایدھی کا رضاکار بھی شامل ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق کراچی پولیس کے دفتر میں دہشت گرد شام 7 سے سوا سات بجے کے قریب داخل ہوئے اور انہوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کی۔ واقعے کے بعد علاقے کو سیل کر کے شاہراہ فیصل کو عام ٹریفک کیلیے بند کیا گیا جبکہ دفتر کی بجلی کو بھی بند کردیا گیا تھا۔
دہشت گردوں کے داخل ہونے کے بعد پولیس آفس کے اندر شدید فائرنگ کے ساتھ ساتھ دستی بم کے متعدد دھماکے بھی ہوئے۔ حملہ آوروں کے حملے کے بعد اہلکاروں نے جوابی فائرنگ بھی کی جبکہ دیگر تھانوں سے نفری بھی طلب کی اور اہلکار مورچہ زن ہوئے۔
بعد ازاں پولیس اہلکار، پولیس کمانڈوز، رینجرز اور پاک فوج کے دستے کلیئرنس آپریشن کیلیے پہنچے اور مربوط حکمت عملی سے عمارت پر سے دہشت گردوں کا قبضہ ختم کرایا۔ اس دوران دو دہشت گرد فائرنگ کے تبادلے جبکہ ایک دو طرفہ فائرنگ کے دوران خود کش جیکٹ پھٹنے سے ہلاک ہوا۔
ڈی آئی جی ایسٹ مقدس حیدر نے تصدیق کی کہ رات دس بجے کے قریب کلیئرنس آپریشن مکمل کرلیا گیا، اس دوران کُل تین دہشت گرد فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے جن میں سے ایک نے چوتھی منزل پر ایک نے خود کو دھماکے سے اڑایا۔
انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران سندھ رینجرز کے 6 جوان جبکہ سندھ پولیس کے 7 اہلکار زخمی ہوئے۔ دو پولیس اہلکاروں اور رینجرز جوان نے جام شہادت نوش کیا جبکہ ایک خاکروب بھی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوا۔ ترجمان سندھ رینجرز کے مطابق شہید ہونے والے سب انسپکٹر کا نام تیمور جبکہ تعلق ملتان سے ہے۔ کلیئرنس آپریشن میں پاک فوج، رینجرز، پولیس، ایس ایس یو اور سی ٹی ڈی کی ٹیم نے حصہ لیا۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی پولیس آفس پر حملے کے بعد دہشگردوں کے خلاف آپریشن کو خود مانیٹر کیا اور تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت آپریشن میں حصہ لینے والوں کی بہادری کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں اور افسران نے بڑی جرأت اور بہادری کا مظاہرہ کیا، کراچی پولیس آفس کو کلیئر کردیا گیا ہے۔
وزیراعلیٰ نے بتایا کہ کلیئرنس آپریشن کے دوران دو پولیس اہلکار، ایک رینجرز کا جوان اور ایک سویلین شہید ہوا جبکہ رینجرز اور پولیس کے 14 اہلکار زخمی ہوئے۔ وزیراعلیٰ نے شہدا کے بلند درجات اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کیلیے دعا بھی کی۔
انہوں نے کہا کہ آپریشن میں زخمی ہونے والوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی جبکہ ہم شہداء کے اہلخانہ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گے، مجھے خوشی ہے کہ قوم دہشگردوں کے خلاف متحد ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے دہشت گردوں سے نمٹنے اور کراچی پولیس آفس کو کلیئر ہونے پر آئی جی آفس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی تعریف بھی کی اور کہا کہ ہماری پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں اور افسران نے زبردست بہادری کا مظاہرہ کر کے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔
کلیئرنس آپریشن مکمل ہونے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضی وہاب کے ساتھ کراچی پولیس آفس کا دورہ کیا اور شجاعت کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے والے اہلکاروں کی حوصلہ افزائی کی۔
جناح اسپتال انتظامیہ کے مطابق چار لاشیں اور سولہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے، جن میں 9 رینجرز اہلکار، ڈی ایس پی اسپیشل سیکیورٹی یونٹ حاجی رزاق، اہلکار اور ایدھی رضاکار ساجد شامل ہے۔
جناح اسپتال منتقل کی گئی دو لاشیں پولیس اہلکاروں کی ہیں، جن کی شناخت اجمل مسیح اور غلام عباس کے نام سے ہوئی، اجمل مسیح خاکروب جبکہ غلام عباس پولیس اہلکار ہے۔
زخمیوں کی شناخت ساجد (ایدھی رضا کار)، عبدالرحیم (رینجرز اہلکار)، لطیف (پولیس اہلکار)، عمران، طاہر (رینجرز اہلکار)، عبدالخالق (انسپکٹر سندھ پولیس)، عمیر (رینجرز اہلکار)، عبدالطیف (رینجرز اہلکار)، رضوان (ایس ایس یو)، الطاف (رینجرز اہلکار)، حاجی رزاق (ڈی ایس پی ایس ایس یو)، ضرب (ہیڈ کانسٹیبل)، تیمور (پولیس اہلکار)، غلام حسین (ایس ایچ او ماڑی پور)، ثمر (رینجرز اہلکار)، نعمان (پولیس اہلکار) کے ناموں سے ہوئی۔ شہدا کی شناخت غلام عباس (پولیس اہلکار)، تیمور (رینجرز اہلکار)، سعید (پولیس کانسٹیبل لفٹ آپریٹر)، اجمل مسیح (خاکروب) کے ناموں سے ہوئی۔
پاکستان رینجرز(سندھ) کی جانب سے کراچی پولیس چیف آفس پر دہشتگردوں کی جانب سے حملے کی اطلاع ملتے ہی رینجرز کی کوئیک رسپانس فورس کے اہلکار مو قع پر پہنچے۔ انسداد دہشتگردی ونگ (قلندر فورس)کے بریگیڈئیر توقیر نے آپریشن کی قیادت کی۔
اعلامیے کے مطابق رینجرز کے انسداد دہشتگردی ونگ (قلندر فورس) کے بریگیڈئیر، وِنگ کمانڈرز اور رینجرز کے جوانوں نے آپریشن میں حصہ لیا۔ رینجرز کی انسداد دہشتگردی ونگ کی جانب سے مشترکہ کارروائی کے مرحلہ وار پولیس آفس کی بلڈنگ کلیئر کی گئی۔
ترجمان کے مطابق دہشتگردوں سے مقا بلے کے دوران رینجرز کے سب انسپکٹر تیمور شہید جبکہ 7 جوان زخمی ہوئے۔ آپریشن کے دوران 3 دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ جو خود کش جیکٹیس پہنے ہوئے تھے جبکہ جدید اسلحہ کے ساتھ دہشتگردوں کی جانب سے ہینڈ گرنیڈ کا بھی استعمال کیا گیا۔
ترجمان کے مطابق پاکستان رینجرز سندھ کسی بھی دہشتگردی کو قلع قمع کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے، دہشتگردوں کے عزائم ناکام بنا دیئے گئے۔ جوانوں اور آفیسرز کے حوصلے بلند ہیں۔ پاک فوج، رینجرز اور پولیس نے بہادری سے مقابلہ کرکے دہشتگردحملے کو نا کا م بنا دیا۔
آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے بتایا کہ دہشت گردوں نے شام 7 بج کر دس منٹ پر حملہ کیا، یہ چھٹی کا وقت ہوتا ہے مگر ہمارے جوانوں نے جواں مردی سے مقابلہ کر کے حملے کو ناکام بنایا اور کم سے کم نقصان ہوا، عمارت سے پہلے مرحلے میں بیس اور کلیئرنس آپریشن کے دوران اتنے ہی لوگوں کو ریسکیو کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ابھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنے لوگ تھے، کام مکمل ہونے کے بعد اعداد و شمار جاری کیے جائیں گے‘۔
عمارت میں موجود پولیس کے اعلیٰ افسران اور اہلکاروں کو سرچ آپریشن کے دوران ریسکیو کیا گیا، جن میں سے کچھ زخمیوں کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔
کلیئرنس آپریشن مکمل ہونے پر پولیس اہلکاروں کے فلک شگاف نعرے
ڈی آئی جی مقدس حیدر نے عمارت کلیئر ہونے کا دعویٰ کیا تو وہاں موجود اہلکاروں نے نعرہ تکبیر، اللہ اکبر، سندھ پولیس زندہ باد، پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔
خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق کراچی پولیس آفس پر حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرلی۔
دہشت گرد کار میں آئے اور کراچی پولیس آفس میں عقب سے داخل ہوئے
کے پی او پر حملہ کرنے والے دہشت گرد سلور کلر کی ٹویوٹا انڈس کار میں سوار ہو کر کے پی او کے عقب میں قائم صدر پولیس لائن سے آئے اور وہاں پر قائم جامع مسجد مدینہ کے قریب کے پی او جانے والے راستہ سے فائرنگ کرتے ہوئے داخل ہوئے۔
مسجد کے نائب امام نے ایکسپریس کو بتایا کہ دہشت وہ مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ انہیں فائرنگ کی آوازیں آئیں جس پر وہ سمجھے کے شاید شادی کی تقریب میں آتشبازی ہو رہی ہے لیکن جسے ہی وہ مسجد سے باہر نکلے تو دہشت گردوں نے ان پر بھی فائرنگ کی تاہم وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ اس مقام پر دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک سوئپر اپنی جان سے چلا گیا۔
بعدازاں دہشت گرد کے پی او کے احاطے میں داخل ہو کر عمارت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
ڈی آئی جی ساؤتھ عرفان بلوچ کے مطابق دہشت گردوں کی جانب سے 20 سے زائد دستی بموں کا استعمال کیا گیا جبکہ ان کے پاس کلاشنکوف ، چنے ، کھجوریں ، پانی کی بوتلیں اور دیگر سامان بھی موجود تھا ، دہشت گرد جس کار میں آئے تھے وہ پورے آپریشن کے دوران اسٹارٹ ہی رہی جس میں سے پولیس نے اجرک ، چٹائی ، چپل ، پانی کی بوتلیں ، ڈیش بورڈ پر رکھی ہوئی نمبر پلیٹ اور میگزین برآمد کیے۔ تاہم کرائم سین یونٹ نے کار سے شواہد جمع کرلیے۔
قبل ازیں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایڈیشنل آئی جیز کے دفتر پر مبینہ حملے کا نوٹس لیتے ہوئے مختلف ڈی آئی جیز کو اپنی زون سے ضروری پولیس فورس بھیجنے کی ہدایت کی۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ مجھے فوری طور پر ایڈیشنل آئی جی کے دفتر پر حملے کے ملزمان گرفتار چاہئیں، کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں، مجھے تھوڑی دیر کے بعد متعلقہ افسر سے واقعے کی رپورٹ چاہیے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کراچی پولیس چیف کے دفتر پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور ایکشن کیلیے خصوصی فورس بھیجنے کا حکم دیا۔
گورنر سندھ نے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کاحکم دیتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ گہری سازش ہے، کسی کو بھی امن وامان کی صورتحال خراب نہیں کرنے دیں گے، عوام کے تعاون سے مٹھی بھر دہشت گردوں کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ عوام پریشان نہ ہوں تھوڑی دیر میں اس جگہ کا دورہ کروں گا۔
وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا کہ کراچی پولیس آفس پر دہشت گردوں کا حملہ افسوس ناک ہے، دہشت گردوں نے سندھ حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا ہے، وزیر اعلیٰ سندھ آپریشن کو ذاتی طور پر مانیٹر کر رہے ہیں جبکہ پولیس، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے جائے وقوعہ پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس اور رینجرز تیار ہے، دہشت گردوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
کراچی پولیس آفس پر حملہ، وزیراعظم نے وزیراعلیٰ سندھ سے رپورٹ طلب کرلی
وزیراعظم کی کراچی پولیس آفس پر ہونے والے دہشت گرد حملے کی مذمت، وزیراعلیٰ سے رپورٹ طلب
وزیراعظم شہباز شریف نے کراچی پولیس آفس پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے رپورٹ طلب کرلی اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی پر پولیس اور سیکورٹی فورسز کو خراج تحسین کیا اور شاباش دی۔
وزیراعظم نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کلین اپ میں وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے پوری ریاستی قوت اور اشتراک عمل کو بروئے کار لانا ہوگا، دہشت گردوں نے ایک بار پھر سے کراچی کو نشانہ بنایا ہے ، بزدلانہ کارروائیوں سے پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ارادے اور عزم کو توڑا نہیں جا سکتا۔
وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ساتھ کھڑی ہے۔ شہباز شریف نے واقعے میں زخمی ہونے والوں کی صحت یابی کی دعا بھی کی۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کراچی پولیس آفس پر ہونے والے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی اور کہا کہ پوری قوم اپنی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف کھڑی ہے، دہشت گردی کی لعنت کے مکمل خاتمے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔

شیئر کریں

Top