انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر مزید 2 روپے 32 پیسے مہنگا

123-815.jpg

کراچی: آئی ایم ایف قرض پروگرام کی عدم بحالی اور نصف سے زائد معاشی سرگرمیاں منجمد ہونے کے باعث پیر کو بھی ڈالر کی اونچی اڑان جاری رہی جس سے ڈالر کا انٹربینک ریٹ 284 روپے سے بھی تجاوز کرگیا جبکہ اوپن ریٹ بڑھ کر 286 روپے کی سطح پر آگیا۔

کاروباری دورانیے کی ابتدا کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 24 پیسے کی کمی سے 281.47 روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن غیریقینی سیاسی و معاشی صورت حال کے سبب کچھ ہی وقفے بعد ڈالر دوبارہ تیز رفتار اڑان بھرنے لگا۔
جس کے نتیجے میں کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر مزید 2 روپے 32 پیسے مہنگا ہوکر 284.03 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔ اوپن کرنسی مارکیٹ میں بھی ڈالر ایک روپے کے اضافے سے 286 روپے کا ہوگیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف حکام قرض پروگرام کی بحالی کے لیے سخت ترین شرائط اور سیاسی عدم استحکام عروج پر پہنچنے سے روپیہ پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قرض پروگرام کی بحالی کو نیوکلئیر پروگرام سے مشروط کرنے سے متعلق آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے بیانات میں تضاد، حکومت کا معیشت کی بحالی کے اقدامات کے برعکس سیاسی سرگرمیوں پر توجہ زیادہ مرکوز کیے جانے سے معیشت بتدریج وینٹیلیٹر پر آنے سے روپیہ یومیہ بنیادوں پر کمزور ہورہا ہے۔
ماہرین کے مطابق ان حالات سے سرمایہ کاری، تجارتی و صنعتی شعبوں میں اضطراب بڑھتا جارہا ہے جو معیشت کی مستقبل کی سمت سے متعلق لاعلم ہوتے ہوئے نہ تو ملک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور نہ ہی تجارت و صنعتی سرگرمیوں سے متعلق فیصلے کررہے ہیں اور یہی عوامل ڈالر کی اہمیت اور اڑان کو تیز رفتار کررہے ہیں۔

سونے کی عالمی اور مقامی قیمتوں میں کمی

123-814.jpg

کراچی: سونے کی عالمی و مقامی قیمتوں میں کمی، پاکستان میں فی تولہ سونا 1000 روپے گھٹ کر 207300 روپے کا ہوگیا۔

بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 7 ڈالر کی کمی سے 1982 ڈالر کی سطح پر آنے کے باعث مقامی صرافہ مارکیٹوں میں بھی پیر کو فی تولہ اور فی دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 1000 روپے اور 858 روپے کی کمی واقع ہوئی۔
کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ سمیت ملک بھر کی صرافہ مارکیٹوں میں فی تولہ سونے کی قیمت گھٹ کر 207300 روپے اور فی دس گرام سونے کی قیمت گھٹ کر 177726 روپے کی سطح پر آگئی۔
اسکے برعکس فی تولہ چاندی کی قیمت بغیر کسی تبدیلی کے 2250 روپے اور دس گرام چاندی کی قیمت بھی بغیر کسی تبدیلی کے 1929 روپے کی سطح پر مستحکم رہی۔
اس سے قبل ہفتہ کو سونے کی عالمی قیمت میں 53 ڈالر کا اضافہ ہوا تھا جس کے سبب پاکستان میں بھی فی تولہ اور فی دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 4100 روپے اور 3516 روپے کا اضافہ ہوگیا تھا۔

آئی ایم ایف کا دباؤ؛ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث بینکوں کے خلاف کارروائی روکی گئی

123-813.jpg

اسلام آباد: آئی ایم ایف کے دباؤ پر امریکی ڈالرز کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث کمرشل بینکوں کے خلاف کارروائی روکی گئی۔

ذرائع کے مطابق کمرشل بینکوں پر الزام ہے کہ انھوں نے ڈالر کے ریٹ میں ہیر پھیر کے ذریعے اربوں روپے کا اضافی منافع کمایا۔
اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے میں 6 مقامی اور 2 غیر ملکی بینک بھی ملوث ہیں۔ اگر اس معاملے میں کارروائی ہوتی تو حکومت کو اربوں روپے کا ریونیو حاصل ہوتا۔
دوسری جانب ترجمان اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بینکوں کے خلاف کارروائی کا معاملہ حکومت کے زیرِ غور ہے۔

کیا پاکستان اپنے یورو بانڈز واپس خرید سکتا ہے؟

123-812.jpg

کراچی: یورو بانڈز واپس خریدنے کے لیے پاکستان امریکی ڈالروں کو استعمال کر کے اکٹھا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔

کمپنیوں کی طرح ملکوں کی بھی بہتر انتظام کاری کا تقاضا یہ ہے کہ ہر اس موقع پر نظر رکھی جائے جس کے ذریعے موجود وسائل سے ہر دن کو بہتر بنایا جاسکے، اسی لیے یہ بات باعث حیرت نہیں کہ عالمی ایگزیکٹوز ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں کہ جہاں وہ اپنے سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے منافع کو بڑھاسکیں۔
شاید پاکستان کے پالیسی سازوں کو بھی ایسے ہی جادوگروں پر مشتمل ہونا چاہیے جو دولت بنانے کے نت نئے طریقے تلاش کر سکیں۔
ایسا ہی ایک آپشن ممکنہ طور پر جاری کردہ عالمی قرض اور بانڈز کو واپس خریدنا ہے۔اگر بانڈ تصوراتی (فیس ویلیو) پر جاری کیا گیا تھا کہیے کہ $100، تو اس کی قیمت اس وقت زیادہ ہو سکتی ہے جب کوئی ملک اچھا کام کر رہا ہو اور مانگ زیادہ ہو ، اس کے برعکس اگر ملک خراب کام کر رہا ہو تو اس کی قیمت کم ہو سکتی ہے۔
حکومت کی تبدیلی کے بعد سے سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف کے پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے میں تاخیر اور سخت عالمی حالات کے براہ راست نتیجے کے طور پر، پاکستان کے 100 ڈالر پر جاری ہونے والے ڈالر بانڈز سیکنڈری مارکیٹوں میں 35 سے 45 ڈالر کی شرح پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں آج کی قیمت پر خریدنے والے کو 35سے45 ڈالر کی قیمت خرید پر 8سے 9ڈالر /سالانہ منافع مل رہا ہوگا، اس طرح 20سے 30 فیصد منافع حاصل ہوگا۔ایسے ممالک کی کئی مثالیں ہیں جن کی مالیاتی طور پر انتظامیہ نے اپنے حصص کو واپس خرید لیا۔
مثال کے طور پر لکی سیمنٹ، اینگرو کارپوریشن، کوہ نور ٹیکسٹائل، جے ڈی ڈبلیو شوگر وغیرہ،2022 میں ایل سلواڈور نے 565 ملین ڈالر کے بانڈز خریدے، 2021 میں انڈونیشیا نے 1.16 بلین ڈالر کے عالمی بانڈز کو واپس خریدنے کے لیے 1.84 بلین ڈالر کے بانڈ فروخت کرنے کا اعلان کیا۔
ایکواڈور نے 2009 میں بانڈز خریدے اور 2019 میں بانڈز واپس خریدنے کے لیے مزید 1.125 بلین ڈالر جاری کیے یہاں تک کہ جنگ زدہ روس نے گزشتہ سال 2 بلین ڈالر کی پیشگی خریداری کا اعلان کیا۔قدرتی طور پر اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ ان بانڈز کی مالی اعانت کیسے کرتے ہیں؟ ٹھیک ہے۔
پرانے قرضوں کو خریدنے کے لیے عالمی منڈیوں میں جانے کے بجائے پاکستان اس سرمائے کو دو طریقوں سے اپنے پاس رکھنے والے امریکی ڈالروں کو استعمال کر کے اکٹھا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، پہلا نیا پاکستان سرٹیفکیٹس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے 10سے 12فیصد کی شرح سے ڈالر حاصل کرنے کے لیے ایک مختصر مدت، ٹائم باؤنڈ اور رقم بانڈ اسکیم شروع کی جانی چاہیے جب تک کہ 3سے 5بلین ڈالر کے ٹارگٹ بانڈز جمع نہیں ہو جاتے۔
دوسرا یہ کہ پاکستان میں امریکی ڈالر اکاؤنٹ ہولڈرز، افراد اور کارپوریٹس کو ذخیرہ اندوزی کم کرنے، بینکنگ سسٹم میں ڈالر واپس لانے اور FX بگرز کو بڑھانے کے لیے اسی طرح کی سہولت 9سے 11فیصد پر پیش کی جانی چاہیے۔
اگرچہ اس طرح کے بے تحاشہ منافع کی شرح پیش کرنے میں خامیاں تلاش کی جائیں گی لیکن 20سے 30فیصد سالانہ منافع پر آلات خریدنے کے لیے 9سے 11فیصد پر قرض لینا ایک اچھی منافع بخش تجارت ہے۔

قرض ادائیگی کے اخراجات بڑھ کر 3 ہزار ارب تک جا پہنچے

123-780.jpg

اسلام آباد: رواں مالی سال قرض ادائیگی کے اخراجات بڑھتے ہوئے 3 ہزار 18 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچے۔

قرض ادائیگی کے اخراجات رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران بڑھتے ہوئے 3 ہزار 18 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچے ہیں جو کہ وفاقی حکومت کی مجموعی آمدنی سے بھی کہیں زیادہ ہیں جس کے بعد اس امر کی ضرورت ہے کہ قرض ادائیگی معاملے کو از سر نو دیکھا جائے تاکہ وفاقی حکومت کو دیگر اخراجات کے لیے بھی رقم میسر آسکے اور ڈیفالٹ سے بچاجاسکے۔
وفاقی مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات میں جولائی کیلیے ایف بی آر کی طرف سے دعوی کردہ ٹیکس وصولی میں 20 ارب روپے کے تضاد کا بھی انکشاف ہوا۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق ایف بی آر نے فروری تک 4.493 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی کا دعویٰ کیا۔تضاد کو ایڈجسٹ کرنے کے بعد رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ٹیکس کا شارٹ فال 232 ارب روپے ہے۔
جولائی تا فروری کی مدت کے لیے مالیاتی کارروائیوں کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 8مہینوں کے دوران سود کے اخراجات نمایاں طور پر بڑھ کر 3.18 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں۔صرف 8ماہ میں وفاقی حکومت کے قرضوں ذخائر پر سود کی ادائیگی کی لاگت میں 70 فیصد اضافہ ہوا۔
گزشتہ تقریباً 4سالوں کے دوران مرکزی بینک کی طرف سے مقرر کردہ شرح سود تقریباً دوگنی ہو کر 20 فیصد ہو گئی ہے جس سے حکومت کے قرض سے متعلق اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ،شرح سود میں مزید اضافہ متوقع ہے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ شرح سود میں حالیہ اضافے سے مکمل طور پر مطمئن نہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا ہے کہ رواں مالی سال میں قرض ادائیگی کے اخراجات کی لاگت تقریباً 5.2 ٹریلین روپے تک بڑھ سکتی ہے جو اس سال کے 9.6 ٹریلین روپے کے کل بجٹ کے نصف سے زیادہ کے برابر ہے۔دفاع کو چھوڑ کر دیگر تمام بڑے اخراجات نے پہلے آٹھ مہینوں میں منفی نمو ظاہر کی۔
فوجی پنشن اور مسلح افواج کے ترقیاتی پروگرام کے اخراجات کو چھوڑ کر آٹھ ماہ میں دفاع پر 871 ارب روپے خرچ کیے گئے جو کہ 117 ارب روپے یا گزشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً 16 فیصد زیادہ ہے۔مجموعی محصولات بڑھ کر 5.6 ٹریلین روپے ہو گئے، وفاقی ٹیکس کا حصہ 2.48 ٹریلین روپے صوبوں کو منتقل کر دیا گیا۔
3.16 ٹریلین روپے کی خالص آمدنی کے ساتھ، قرض ادائیگی اور دفاع پر ہونے والے اخراجات 4.05 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو گئے۔آئی ایم ایف پروگرام کے تحت پاکستان نے بنیادی خسارے کو جس کا حساب سود کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر کیا گیا، کو جی ڈی پی کے 0.2 فیصد کے سرپلس میں تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا، جو گزشتہ مالی سال کے 3.6 فیصد سے کم تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ اے جی پی آر نے ایف بی آر کی جانب سے 4.493 ٹریلین روپے کے دعوے کے مقابلے میں 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولیوں کی تصدیق کی ہے۔ 4.473 ٹریلین روپے کی ٹیکس وصولی گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ تھی ، یہ تناسب جو کہ موجودہ مہنگائی کی شرح کے نصف سے بھی کم اور ایف بی آر کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پاکستان سے تجارت بڑھانے کی گنجائش موجود ہے، امریکی سفیر

123-779.jpg

سلام آباد: امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا ہے کہ پاکستان سے تجارت بڑھانے کی گنجائش موجود ہے۔

امریکی سفارتخانہ اسلام آباد کی جانب سے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں 2 روزہ یو ایس پاکستان انوویشن ایکسپو گزشتہ روز شروع ہوگئی، نمائش کا مقصد حکومتِ امریکا کی معاونت سے فعال ہونیوالے نئے پاکستانی کاروباری سلسلوں (سٹارٹ اپس) کی کامیابیوں کی کہانیوں کو اْجاگر اور اْن کیلیے مزید سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنا ہے.
تقریب سے افتتاحی خطاب میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے کہا کہ جامع اقتصادی ترقی کو فروغ دینا اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا امریکی حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے، امریکہ پہلے ہی پاکستانی مصنوعات کیلیے سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے جبکہ ہم سال بہ سال پاکستان میں امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھ رہے ہیں لیکن اب بھی دوطرفہ تجارت کو وسعت دینے کی گنجائش موجود ہے.
سفیر کا کہنا تھا کہ پاکستان بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال مْلک ہے لیکن کامیابی کی اگلی منزل تک رسائی کیلیے اختراع پسندی اور ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔

ہفتہ رفتہ؛ ڈالر کی اڑان جاری رہی، اسٹاک مارکیٹ میں 63 ارب روپے ڈوبے

123-778.jpg

کراچی: آئی ایم ایف کی بے اعتباری اور تمام مطلوبہ شرائط پوری ہونے کے باوجود پاکستان کے ساتھ اسٹاف معاہدے میں تاخیر سے گزشتہ ہفتے بھی ڈالر کی پرواز جاری رہی۔

آئی ایم ایف کی جانب سے معاہدے کو دوست ممالک سے 6ارب ڈالر کے ڈپازٹ سے مشروط کرنے سے ڈالر بے قابو رہا جس سے ہفتہ وار کاروبار میں ڈالر 282روپے سے بھی تجاوز کرگیا تھا۔ ڈالر پورے ہفتے اتار چڑھاؤ کا شکار رہا لیکن اسکے ساتھ پاؤنڈ اور یورو کی پرواز بھی انتہائی تیز رفتار رہی۔
ماہ رمضان کے دوران سمندر پار مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر بڑھنے کی امید پر ہفتے کے اختتام پر ڈالر کو بریک لگ گئے اور ذرمبادلہ ذخائر تسلسل سے پانچویں ہفتے بھی بڑھنے سے روپیہ کو سہارا ملا۔
ہفتہ وار کاروبار میں ڈالر کے انٹربینک ریٹ 281روپے سے تجاوز کرگئے جبکہ ڈالر کے اوپن ریٹ بھی بڑھکر 285روپے کی سطح پر آگیا۔ ہفتہ وار کاروبار کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر اتارچڑھاو کے بعد 38پیسے بڑھکر 281.71روپے کی سطح پر بند ہوئی جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 2روپے بڑھکر 285 روپے پر بند ہوئی۔
برطانوی پاؤنڈ کے انٹربینک ریٹ 6.49روپے بڑھ کر 342.15روپے ہوگئے جبکہ اوپن مارکیٹ میں برطانوی پاؤنڈ کی قدر 7روپے بڑھکر 302روپے ہوگئی۔
دریں اثنا داخلی سطح پر سیاسی انتشار برقرار رہنے اور آئی ایم ایف کی قرض پروگرام سے متعلق آنکھ مچولی سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج گزشتہ ہفتے محدود اتار چڑھاؤ کے ساتھ مندی کی لپیٹ میں رہی۔
وزارت خزانہ کے دعوؤں کے باوجود گزشتہ ہفتے بھی آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول کا معاہدہ نہ ہونے سے سرمایہ کاروں میں مایوسی بڑھی جبکہ اگلے ماہ کے پہلے ہفتے کی نئی مانیٹری پالیسہ میں شرح سود مزید ایک فیصد بڑھنے کے خدشات سے سرمایہ کار محتاط رہے۔
ہفتہ وار کاروبار کے دوران آئل، گیس، او ایم سیز بینکنگ سیکٹر پرافٹ ٹیکنگ کی زد میں رہے۔ بعض مثبت معاشی اشاریوں سے کچھ سیشنز میں محدود تیزی بھی ہوئی۔ مجموعی طور پر مندی سے انڈیکس کی 41700 ,41600, 41500, 41400 پوائنٹس کی حدیں گرگئیں۔ گزشتہ ہفتے کے 2سیشنز میں معمولی تیزی اور 3سیشنز میں مندی رہی۔
مجموعی مندی کے سبب سرمایہ کاروں کے 63ارب 36کروڑ 14لاکھ 36ہزار 258روپے ڈوب گئے جس سے مارکیٹ کا مجموعی سرمایہ بھی گھٹ کر 63کھرب 19ارب 91 کروڑ 64لاکھ 60ہزار 852 روپے ہوگیا۔

عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں 15 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئیں

123-777.jpg

لاہور: عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں گر کر 48 ڈالر فی بیرل ہوگئیں جو 15 ماہ کے دوران تیل کی قیمتوں کی کم ترین سطح ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار منجمد نہ کرنے کا عندیہ دیے جانے کے بعد عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتیں 15 ماہ کی کم ترین سطح پر آگئیں۔
گزشتہ روز برطانوی برینٹ کروڈ کے سودے 1.73 ڈالر کی کمی سے 72.97 جبکہ امریکی ویسٹ ٹیکساس کے سودے 1.61 ڈالرکی کمی کے ساتھ 66.74 ڈالر فی بیرل میں ہوئے۔
عالمی سطح پر خام تیل کی قیمت گراوٹ کا شکار ہے اور برینٹ کروڈ کی قیمت میں 73 سینٹس کی کمی کے بعد 48 ڈالر فی بیرل میں فروخت ہو رہا ہے۔
عالمی منڈی کی قیمتوں میں کمی کا اثر مقامی منڈیوں پر بھی پڑے گا جس کے باعث تیل کی قیمتوں میں پانچ سے سات روپے کمی ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ روس یوکرین جنگ کے باعث دنیا بھر میں خام تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا تھا تاہم اب عالمی مارکیٹ استحکام کی جانب رواں ہے۔

سونے کی قیمت میں ہزاروں روپے کا بڑا اضافہ

کراچی: سونے کی عالمی قیمت میں 53 ڈالر کا اضافہ ہوا جس کے سبب پاکستان میں سونے کے قیمت کئی ہزار روپے بڑھ گئی۔

بین الاقوامی بلین مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 53 ڈالر کے اضافے سے 1989 ڈالر کی سطح پر آنے کے باعث مقامی صرافہ مارکیٹوں میں ہفتے کو بھی فی تولہ اور فی دس گرام سونے کی قیمتوں میں بالترتیب 4100 روپے اور 3516 روپے کا اضافہ ہوگیا۔
نتیجے میں ملک کے مختلف شہروں میں فی تولہ سونے کی قیمت بڑھ کر دو لاکھ 8 ہزار 300 روپے اور فی دس گرام سونے کی قیمت بڑھ کر ایک لاکھ 78 ہزار 584 روپے کی سطح پر آگئی۔
اسی طرح فی تولہ چاندی کی قیمت 100 روپے بڑھ کر 2250 روپے اور دس گرام چاندی کی قیمت 85.73 روپے بڑھ کر 1929 روپے کی سطح پر آگئی۔

سگریٹ سیکٹرمیں بھاری ٹیکس چوری کا انکشاف

1-14.png

اسلام آباد: سگریٹ کی تیاری اور فروخت کے شعبے میں بھاری ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے، جس کی وجہ سے سگریٹ کے ریگولیٹڈ سیکٹر سے ایف بی آر کو حاصل ہونے والی ٹیکس وصولیاں بھی متاثر ہورہی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے سگریٹ انڈسٹری پر بھاری ٹیکس عائد کیے جانے کے بعد صارفین میں غیر قانونی اور مضر صحت سگریٹ کی خریداری کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے جس کے نتیجے میں اس شعبے میں ٹیکس چوری میں غیرمعمولی اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔
وفاقی حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کی خاطر 170ارب روپے کے نئے ٹیکس حاصل کرنے کے لیے سب سے زیادہ سگریٹ پر انحصار کررہی ہے۔ سگریٹ انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق اس شعبے میں ٹیکس چوری کی شرح پہلے ہی بہت بلند ہے اوراب فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی غیرمعمولی حد تک بڑھ جانے کے بعد اس رجحان میں مزید اضافہ ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے مختلف برانڈز حکومت کی مقررکردہ قیمت سے نصف پر فروخت کیے جارہے ہیں جبکہ فروخت بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی انعامی اسکیمیں بھی شروع کردی گئی ہیں۔
ذرائع کے مطابق سگریٹ بنانے اور فروخت کرنے والی قانونی صنعت کی بھرپور مخالفت کے باوجود فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا جس سے قانونی سگریٹ کی قیمت میں یکدم سوفیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسمگل شدہ برانڈز کے سگریٹ مقامی سطح پر تیار کردہ غیرقانونی سگریٹ کے مقابلے میں 50سے 100روپے فی پیکٹ کم قیمت پر فروخت ہورہے ہیں جس سے بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری ہورہا ہے۔
حکومت نے رواں مالی سال سگریٹ انڈسٹری سے 200ارب روپے کا ٹیکس وصول کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا، ایف ای ڈی میں غیرمعمولی اضافے سے اس ہدف میں بھی اضافہ ہوگیا ہے، تاہم حکومت کے لیے 200ارب روپے کا معمول کا ہدف پورا کرنا بھی دشوار ہوگا۔
سگریٹ پر ایف ای ڈی لگنے سے قانونی سگریٹ کی فروخت میں 50فیصد تک کمی کا خدشہ ہے جس سے حکومت کا ریونیو بھی اسی تناسب سے متاثر ہوگا، ایف ای ڈی کا فائدہ صرف غیرقانونی سگریٹ برانڈز کو پہنچے گا جو اپنے برانڈز کی قیمت بھی بڑھارہے ہیں اور ٹیکس دیے بغیر اپنے مارجن اور مارکیٹ میں اپنے نفوذ میں اضافہ کررہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق ایف ای ڈی میں حالیہ اضافے سے پاکستان میں سگریٹ کی قانونی فروخت کا مارکیٹ شیئر 60فیصد سے گر کر 50فیصد سے بھی کم ہوجائے گا اور اس خلا کو سستے غیرقانونی سگریٹ پورا کریں گے جو قانونی صنعت میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔

Top