اسکرین ٹائم کی زیادتی، خودکشی کی جانب دھکیل سکتی ہے!

123-799.jpg

سان فرانسسكو: ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ویڈیوز دیکھنے، ویڈیو گیمز کھیلنے، ٹیکسٹ اور ویڈیو چیٹ کرنے جیسی سرگرمیاں خودکشی کے رجحان میں اضافہ کرسکتی ہیں کیونکہ ان دونوں کے درمیان تعلق سامنے آیا ہے۔

حال ہی میں کی جانے والی تحقیق میں یہ بتایا گیا ہے کہ 9 سے 11 سال کے درمیان بچے جو اسکرین پر زیادہ وقت صرف کرتے ہیں ان میں دو سال بعد خودکشی کا رجحان پیدا ہونے کا خطرہ زیادہ ہوجاتا ہے۔
تحقیق کے نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب نوجوانوں کی ذہنی صحت کا بحران بدتر ہو رہا ہے اور نئی قانون سازی متعارف کرائی جارہی ہے جس کا مقصد 16 سال سے کم عمر بچوں کی سوشل میڈیا تک رسائی کو روکنا ہے۔
جرنل پریوینٹِو میڈیسن میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ اسکرین ٹائم میں ایک گھنٹے تک کا اضافہ دو سال بعد خود کشی کے رجحان میں 9 فی صد تک کا اضافہ کر سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان فرانسسکو میں پیڈیئٹرکس کے اسسٹنٹ پروفیسر اور تحقیق کے سینئر مصنف جیسن نگاٹا کا کہنا تھا کہ اسکرین پر زیادہ وقت صرف کرنا معاشرتی سطح پر علیحدگی، سائبر بُلینگ اور نیند میں خلل کا سبب بن سکتا ہے جو ذہنی صحت بدتر کر سکتا ہے۔اسکرین پر زیادہ وقت گزارنا معاشرتی امور میں حصہ لینے، جسمانی سرگرمیاں کرنے اور نیند کے اوقات کو متاثر کرتا ہے۔
تحقیق میں 9 سے 11 سال کے 11 ہزار 633 بچوں کے اسکرین ٹائم ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا اور ان بچوں کو دو سالوں تک زیر مطالعہ رکھا گیا۔ بچوں نے اسکرین پر چھ مختلف طریقوں سے گزارے جانے والے وقت اور خود کشی کے رویوں کے حوالے سے سوالات کا جواب دیا۔
یونیورسٹی آف ٹورونٹو کے اسسٹنٹ پروفیسر اور تحقیق کے شریک مصنف کائل ٹی گینسن کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کا زیادہ تر حصہ کووڈ-19 کی عالمی وباء سے پہلے مکمل کیا گیا لیکن اس کے نتائج اب کووڈ کے دوران ذہنی صحت کے بدتر ہونے کی وجہ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

برڈ فُلو کے خلاف دو نئی ویکسین کارآمد ثابت

123-798.jpg

ایمسٹر ڈیم: ہالینڈ میں شعبہ حیوان سے وابستہ ایک تحقیقی مرکز نے دو نئی ویکسین بنانے کا اعلان کیا ہے جو برڈ فلو کے خلاف بہت مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔

ولندیزی حکومت نے پہلے تجربے کے بعد باضابطہ طورپراس کا اعلان بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک ویکسین فرانس کی کیوا انیمل ہیلتھ نے بنائی ہے اور دوسری جرمن کمپنی بوئرنجر نے تیار کی ہے جس میں ہالینڈ نے معاونت کی ہے۔
برڈ فلو کو ایویئن انفلوئنزا بھی کہا جاتا ہے اور پوری دنیا کے کئی ممالک میں اس کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اس طرح کل 20 کروڑ پرندوں کو ہلاک کیا گیا ہے جبکہ صرف ہالینڈ نے 60 لاکھ پرندے تلف کئے گئے ہیں۔ اس سی کئی ممالک میں انڈوں کی قیمتیں آسمان سےباتیں کررہی ہیں۔
ہالینڈ میں ان دونوں ویکسین کی آزمائش کی گئی ہے جبکہ فرانس نے بطخوں اور اٹلی نے ٹرکی پرندوں پر اس کی آزمائش کی ہے۔ تاہم یہ ویکسین ایچ فائیو این ون کے خلاف آزمائی گئی ہے جو تیزی سے یورپ میں پھیل رہا ہے۔
ہالینڈ کے ایک اور شہر میں اسے مرغیوں پر آزمایا گیا ہے جبکہ دونوں ویکسین تجربہ گاہ میں بھی پرتاثیر دیکھی گئی ہیں۔

بچوں کو مونگ پھلی کی الرجی سے بچانے کے لیے طریقہ کار وضع

123-766.jpg

ندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کوچار ماہ کی عمر سے ہی مونگ پھیلی سے بنی غذائی اشیاء کھلانا شروع کردینی چاہیئے تاکہ ان کو کسی بھی قسم کی الرجی میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکے۔

حالیہ دہائیوں میں لوگوں کو مونگ پھلی سے ہونے والی الرجی کی شکایات میں تین گُنا اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ شدید نوعیت کے معاملات میں اموات بھی پیش آسکتی ہیں۔
اس وقت ہر 50 میں سے ایک بچہ اس مسئلے کا شکار ہے جو زندگی بھر کے لیے کھانے میں موجود اجزاءکے حوالے سے ایک قابلِ فکر بات ہے۔ لیکن برطانیہ میں محققین نے ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس سے بچوں کو اس مسئلے سے نجات دلائی جاسکتی ہے۔
محققین کے مطابق بچوں کو مونگ پھلی سے بنی اشیاء کھلانا شروع کرنے کا سب سے اچھا وقت چار سے چھ ماہ کی عمر کے دوران ہوتا ہے۔ ایسا کرنے سے بچوں کے الرجی میں مبتلا ہونے کے امکانات 77 فی صد تک کم ہوسکتے ہیں۔
کنگز کالج لندن اور یونیورسٹی آف ساؤتھیمپٹن کے محققین کی ٹیم کا کہنا تھا کہ بچے کے ایک سال کے ہونے تک مونگ پھلی سے ہونے والی زیادہ تر الرجیز پنپ چکی ہوتی ہیں۔
اس تحقیق میں محققین نے انکوائرنگ اباؤٹ ٹولرینس (EAT) اور لرننگ ارلی اباؤٹ پِینٹ الرجی (LEAP) مطالعوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا مطالعہ کیا۔
لِیپ مطالعے میں 640 ایسے بچے شامل تھے جن کے مونگ پھلی کی الرجی میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت زیادہ تھے۔ مطالعے میں ان کو ابتدائی عمر میں ہی مونگ پھلی سے بنی اشیاء کے کھلائے جانے کا تجزیہ کیا گیا۔
اِیٹ پروجیکٹ میں برطانیہ اور ویلز کے 1 ہزار 300 سے زائد تین ماہ کے بچوں کا انتخاب کیا گیا۔ تحقیق میں ان کو کئی سالوں تک زیرِ نگرانی رکھا گیا تاکہ ابتدائی عمر میں الرجی کرنے والی غذائیں یعنی دودھ، مونگ پھلی، تِل، مچھلی، انڈا اور گندم کھلا کر ان کا مطالعہ کیا جاسکے۔

معدے کے کینسر کی نئی تھراپی نے چوہوں کا سرطان ختم کردیا

123-730.jpg

یویارک: سرطان اگرچہ لاعلاج نہیں لیکن بیماریوں کی فہرست میں عالمی دردِ سر ضرور بناہوا ہے۔ اب ماہرین نے ایک نئے طریقہ علاج کو چوہوں پر آزما کر ان میں گیسٹرک (معدے) کینسرکو ختم کرنے کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

ایڈوانسڈ تھیراپیوٹکس نامی جرنل کی حالیہ اشاعت کی ایک رپورٹ کے مطابق ایسٹرزنیکا کمپنی، کورنیل یونیورسٹی اور میموریئل سلون کیٹرنگ کینسر سینٹر (ایم ایس کے سی سی) کے ڈاکٹر مشیل بریڈبری اور دیگر ماہرین نے اس ٹارگٹ کینسر تھراپی کو چوہوں پرآزمایا ہے۔
اس میں اینٹی باڈی کے ٹکڑوں کو ایسے نینوذرات سے ملاکر استعمال کیا گیا جنہیں سالماتی انجینیئرنگ سے ڈھالا گیا تھا۔ کورنیل یونیورسٹی نے اسے پرائم ڈاٹس کا نام دیا ہے۔ یہ نینوذرات انتہائی باریک ہونے کی وجہ سے سرطانی رسولیوں میں نفوذ کرسکتے ہیں۔ اگرچہ انہیں 15 سال پہلے بنایا گیا تھا لیکن اب انہیں اینٹی باڈی کے ساتھ ملاکر استعمال کیا گیا ہے۔
ایسٹرازنیکا نے اینٹی باڈیز کے ٹکڑوں کو کچھ اسطرح تبدیل کیا ہے کہ وہ سی ڈاٹ سے جڑسکتا ہے اور ایچ ای آرٹو پروٹین کو نشانہ بناتا ہے۔ واضح رہے کہ ایچ ای آرٹو پروٹین معدے کے سرطان کی وجہ بنتا ہے۔ تاہم ایسٹرزنیکا میں اس میں اپنی دوا بھی شامل کی ہے۔
جب اسے چوہے پر آزمایا گیا تو سارے چوہے معدے کے کینسر سے آزاد ہوگئے اور 200 روز بعد بھی ان میں سرطان کا کوئی شائبہ نہیں تھا۔
ماہرین کے مطابق ماضی میں کئی طبی تحقیقات پہلے چوہوں پر کی گئیں اور اس کے بعد انسانوں پر بھی کامیاب ہوئیں اور امید ہے کہ اس کی انسانی آزمائش میں جلد کوئی پیشرفت ہوسکے گی۔

ذہنی تناؤ کم کیجئے، دماغ خود تیز ہوجائے گا

123-729.jpg

اٹلانٹا: ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہےکہ ذہنی تناؤ اور دماغی صلاحیت کے درمیان گہرا تعلق ہوتا ہے اور اسے کم کرکے ہم اپنے دماغ کو توانا اور بہتر رکھ سکتے ہیں۔

جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (جاما) کے اوپن نیٹ ورک میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جیسے ہی ہمارا اسٹریس بڑھتا ہے ویسے ہی یادداشت، ارتکاز، قوتِ فیصلہ اور دماغی افعال متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سے قبل ماہرین سائنسی تحقیق کے بعد خبردار کرچکے ہیں کہ اسٹریس پورے بدن کو متاثر کرتےہیں۔
اب ایموری یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن، اٹلانٹا کی ایمبر کل شریشترا نےیہ مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ زندگی سے تناؤ بالکل ختم کرنا ممکن نہیں لیکن ہم اسے کسی طرح کم کرسکتے ہیں اور اسے اسٹریس مینجمنٹ کہتے ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ لوگ اپنا خیال رکھیں اور مراقبے اور مائنڈفلنیس سے اس تناؤ کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف دماغ توانا رہ سکتا ہے بلکہ اس کی صلاحیتیں متاثر ہونے سے رہ جاتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر ذہنی تناؤ مسلسل جاری رہے تو اکتساب میں کمی کا خطرہ 37 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ اس ضمن میں سیاہ فام اور سفید فام افراد کاجائزہ لیا گیا جن میں 10 ہزار سے زائد لوگ شامل تھے۔ سیاہ و سفید فام افراد کی تعداد نصف تھی جبکہ 40 فیصد خواتین بھی شامل تھیں۔ 23 فیصد خواتین میں معمول سے زیادہ اسٹریس دیکھا گیا تھا۔
پہلی بات یہ سامنے آئی کہ خواتین میں اس کی شرح زیادہ تھی اور سیاہ فام عورتیں اس کا زیادہ شکار تھیں۔ لیکن جن مردوخواتین میں تناؤ زیادہ تھا ان میں امراضِ قلب کی شرح بھی زیادہ تھی۔ دوسری جانب جن خواتین و حضرات نے اپنے دماغی تناؤ پر قابو پالیا ان کی ذہنی اور دماغی کیفیت بہتر رہی ۔ ان افراد نے نیند کی تکمیل، سانس کی مشق، مراقبے اور مناسب غذا سے خود کو بہتر بنایا۔
اس کے برخلاف جن افراد نے خود کو اسٹریس کے حوالے کردیا ان کی یادداشت، توجہ اور دیگر صلاحیتیں بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوئیں۔ ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ کسی بھی طرح اسٹریس کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں اور اسے کم کرنے کی کوشش کریں۔

گول کیپرز کے مقابلے میں فٹبال پلیئرز کیلئے ڈمینشیا کا خطرہ زیادہ

1-8.png

اسٹاک ہوم: سویڈن میں کئی سالوں سےجاری تحقیق سے پتا چلا ہے کہ مرد فٹبالرز میں ڈمینشیا کا خطرہ عام آبادی کے مقابلے میں ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔

تحقیق کے مطابق تقریباً 9 فیصد فٹبالرز نے میں یہ مرض جنم لے لیتا ہے لیکن دوسری جانب گول کیپرز کو اس مرض سے زیادہ خطرہ نہیں اور اس کی ایک سیدھی سادی وجہ ہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ باوجود اس کے کہ ڈمینشیا کی اور بھی کئی وجوہات ہیں، فٹ بال کو سر سے مارنا بھی دماغی چوٹ سے منسلک ہے جس کی وجہ سے فٹبالرز میں حادثاتی طور پر ڈمنشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اور دوسری جانب چونکہ گول کیپرز کا کام فٹبال کو مارنا نہیں ہوتا لہٰذا ان میں اس کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
اسی طرح اسکاٹ لینڈ میں بھی ہوئے ایک مطالعے میں فٹبالرز کے لیے ڈمنشیا کا خطرہ پایا گیا تھا کہ سابق پیشہ ور کھلاڑیوں میں ڈمینشیا سے مرنے کے امکانات عام آبادی کے ہم عمروں کے مقابلے میں ساڑھے تین گنا زیادہ ہیں۔

میڈیٹرینیئن طرز کی غذا خواتین کو امراضِ قلب سے بچاسکتی ہے

123-694.jpg

لندن: ایک نئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ میڈیٹرینیئن طرز کی غذاؤں بالخصوص خواتین میں امراضِ قلب کی شرح کم کرسکتی ہے اور ان کا باقاعدہ استعمال اس خطرے کو 25 فیصد کم کرتا ہے۔

اس غذا میں زیتون کا تیل، دیگر مفید چکنائیاں، پھل اور سبزیوں کے علاوہ کم چکنائیوں والا گوشت شامل ہے۔ بحیرہ روم کی اطراف رہنے والی اقوام چونکہ یہ غذائیں زیادہ کھاتی ہیں اسی وجہ سے انہیں میڈیٹرینیئن ڈائٹ کہا جاتا ہے۔ اس میں یونانی دہی، بیریاں، سامن مچھلیاں، ایکسٹراورجن تیل،ہرے پتوں والی سبزیاں، لوبیا اور کم چکنائی والا دودھ شامل ہے۔
جرنل ہارٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق اس ضمن میں ہزاروں خواتین کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ تحقیق ٹیمپل یونیورسٹی آف ہارٹ ڈیزیز نے کی ہے جو 2003 سے 2021 تک جاری رہیں اور اس میں 16 چھوٹے بڑے مطالعات کو شامل کیا گیا ہے۔
مجموعی طور پر اس میں 70 ہزار سے زائد خواتین کو شامل کیا گیا ہے۔ پھر یہ ایک طویل مطالعہ ہے جو 12 برس تک جاری رہا جس سے معلوم ہوا کہ جو خواتین اس قسم کی غذا کو اپنا معمول بناتی ہیں ان میں امراض قلب کا خطرہ 24 سے 26 فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔
اگرچہ یہ تحقیق خواتین پر کی گئی ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ مردوں پر بھی اس کے یکساں اثرات مرتب ہوسکتے ہیں جس پر مزید تحقیق جاری ہے۔

صفائی کےعام کیمیکل سے پارکنسن کا خطرہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے

123-650.jpg

نیویارک: صفائی ستھرائی میں استعمال ہونے والا عام کیمیکل پارکنسن کے مرض کا خطرہ پانچ گنا بڑھا سکتا ہے۔ ٹرائی کلوروایتھائلین نامی یہ کیمیکل پوری دنیا میں کئی کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔

ٹرائی کلوروایتھائلین کمرشل ڈرائی کلینرز، صنعتی امور، وائپس، پینٹ ہٹانے والے کیمیکل اور قالین صاف کرنے والی مصنوعات میں عام استعمال ہوتا ہے۔ گزشتہ 100 برس سے ٹرائی کلوروایتھائلین (ٹی سی ای) دنیا بھر میں عام استعمال ہورے ہیں۔
ٹی سی ای اسقاطِ حمل، سرطان اور دیگر امراض کی وجہ بھی بن سکتا ہے لیکن اس سے پارکنسن کا خطرہ 500 فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ٹی سی ای انمٹ داغوں کو دور کرنے والی مصنوعات میں بھی پایا جاتا ہے۔
جرنل آف پارکنسن ڈیزیز میں شائع رپورٹ میں جامعہ روچیسٹر کے عصبی ماہر رے ڈورسے اور دیگر نے کم ازکم سات ایسی مشہور شخصیات کا احوال لکھا ہے جو ایک عرصے تک ٹی سی ای سے آلودہ ماحول میں تھے اور پارکنسن کے مریض ٹھہرے۔
1970 کے عشرے میں اس کا اندھا دھند استعمال بڑھا اورسالانہ استعمال 60 کروڑ پونڈ تک جاپہنچا۔ اس سے بالراست یا براہِ راست ایک کروڑ امریکی اس کیمیکل سے آشکار ہوئے۔ یہاں تک کہ یہ گھروں تک پہنچ گیا۔
جانوروں پر تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ ٹی سی ای کے سالمات دماغ اور جلد سے انسانی جسم میں اترتے ہیں۔ وہاں جاکر وہ خلیاتی توانائی گھر یعنی مائٹوکونڈریا کو تباہ کرتے ہیں۔ اس سے دماغی خلیات (نیورونز) متاثرہوتے ہیں اور یوں پارکنسن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ عمل دھیرے دھیرے ہوتا ہے اور کسی سلوپوئزن کی طرح عمل کرتا ہے۔

اسمارٹ فون بند کر کے سونا حاملہ خواتین میں ذیابیطس کے خطرات کو کم کر سکتا ہے

123-649.jpg

اِلینوائے: امریکی ماہرین کے مطابق سوتے وقت اسمارٹ فون کا بند کیا جانا اور روشنی کا کم کیا جانا حاملہ خواتین میں جیسٹیشنل ذیابیطس کے خطرات کو کم کر سکتا ہے۔

جیسٹیشنل ذیا بیطس ایک قسم کی ذیا بیطس ہے جو حمل کے دوران ہوتی ہے اور تقریباً پانچ فی صد حاملہ خواتین اس سے متاثر ہوتی ہیں۔ اکثر حمل معمول کے مطابق ہوتے ہیں اور بچے کی پیدائش کے بعد معاملات معمول کے مطابق ہو جاتے ہیں لیکن اس صورت میں مبتلا ہونے کا تعلق قبل از وقت پیدائش اور غیر معمولی جسامت کے بچوں کی پیدائش سے اور خواتین کے ٹائپ 2 ذیا بیطس میں مبتلا ہونے کے انتہائی خطرات سے ہوتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق وہ خواتین جن پر سونے سے تین گھنٹے پہلے تک زیادہ روشنی افشا ہوتی ہے ان میں جیسٹیشنل ذیا بیطس کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
تحقیق میں محققین نے 741 ایسی خواتین کا مطالعہ کیا جو حمل کے دوسرے سہ ماہی میں تھیں۔ ان کی کلائی پر ایک آلا لگایا گیا جس نے لگاتار سات دنوں تک ان پر افشا ہونے والی روشنی کی پیمائش کی۔
تحقیق میں دیکھا گیا کہ خواتین سونے سے تین گھنٹے قبل معمولی، تیز روشنی (10 lux)میں کتنا وقت گزارتی ہیں۔ آلے نے دھیمی روشنی میں گزارے جانے والے وقت کی بھی پیمائش کی۔lux روشنی کی شدت کی پیمائش کرنے والی ایک اکائی ہوتی ہے۔
محققین نے ان خواتین کو تین گروہوں میں تقسیم کیا۔ وہ خواتین جن پر سب سے زیادہ معمول کی روشنی افشا ہوئی تھی(اوسطاً ایک گھنٹا اور 19 منٹ) ان کے جیسٹیشنل ذیا بیطس میں مبتلا ہونے کے ساڑھے پانچ گُنا زیادہ امکانات تھے۔

چوہے بھی کورونا ویریئنٹس سے متاثر ہوسکتے ہیں، تحقیق

123-602.jpg

کولمبیا، مِزری: ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ چوہے بھی کورونا وائرس کے ایلفا، ڈیلٹا اور اومیکرون ویریئنٹس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔

امیریکن سوسائیٹی فار مائیکروبایولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ نیویارک شہر میں کورونا وائرس جنگلی چوہوں کو متاثر کر چکا ہے۔
تحقیق میں محققین نے وائرسز کے ساتھ ممکنہ تعلق دریافت کیا جو عالمی وباء کے ابتدائی دنوں کے دوران انسانوں میں پھیل رہا تھا۔
امریکی دفترِ زراعت اور جانور اور پودوں کی ہیلتھ انسپیکشن سروس نے 79 ناروییئن چوہوں کے نمونوں کا تجزیہ کیا تاکہ کووڈ-19 انفیکشن کے شواہد دیکھے جاسکیں۔ حاصل کیے گئے 79 نمونوں میں 13 چوہوں کا کووڈ ٹیسٹ مثبت آیا۔
تحقیق میں محققین کے سامنے یہ بات آئی کہ ایلفا، ڈیلٹا اور اومیکرون ویریئنٹس چوہوں میں انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف مِزری کے پروفیسر ڈاکٹر ہینری وین کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس ویریئنٹس امریکا کے شہری علاقوں کے بڑے حصے میں جنگلی چوہوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
واضح رہے نیویارک میں جنگلی چوہوں کی تعداد 80 لاکھ کے قریب ہے۔

Top