گہری اور مکمل نیند، ویکسین کی افادیت بڑھا دیتی ہے

123-601.jpg

لاس اینجس: اچھی اور گہری نیند سے بڑی کوئی نعمت نہیں اور یہی وجہ ہے کہ تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مکمل، گہری اور پرسکون نیند ویکسین کی افادیت بڑھا سکتی ہے۔ اسی طرح ناکافی اور خراب نیند ویکسین کا اثر کم کرسکتی ہیں۔

کرنٹ بایالوجی میں شائع ہونے والی میٹا رپورٹ کے مطابق اگر ویکسینیشن سے چند روز پہلے اور چند دن بعد آپ کی نیند خراب رہتی ہے تو اس سے ویکسین کی تاثیر کم ہوسکتی ہے۔ اس طرح بدن میں اینٹی باڈیز کی پیداوار اور برتاؤ بھی خراب ہوسکتا ہے۔ خراب نیند سے مراد یہ ہے کہ اگر آٹھ گھنٹے سے کم کی نیند ہو تو اسے ناکافی نیند شمار کیا جاتا ہے۔
جامعہ کیلیفورنیا لاس اینجلس میں موجود جین اینڈ ٹیری سیمل انسٹی ٹیوٹ فار نیوروسائنس سے وابستہ ڈاکٹر ڈاکٹر مارون ارون اور ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کئی مطالعات اور تحقیق کا جائزہ لیا ہے جن میں ہیپاٹائٹس اور انفلوئنزا ویکسین کی افادیت اور نیند کے دوران تعلق کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جن افراد نے ویکسین سے پہلے اور بعد میں مناسب نیند نہیں لی تھی ان میں ویکسین کی اینٹی باڈیز کم پیدا ہوئیں اور یہ فرق ایسا ہے کہ اسے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس مطالعے میں ہزارہا افراد پر ویکسین اور نیند کی کمی اور زیادتی کے بعد اینٹی باڈیز کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اگرچہ اس میں کووڈ 19 ویکسین پر غور نہیں کیا گیا لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ عین یہی معاملہ کووڈ ویکسین کے لیے بھی درست ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی بنا پر انہوں نے ویکسین لگوانے والوں کو مکمل اور پرسکون نیند کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ 8 سے 9 گھنٹے کی نیند ضرور پوری کریں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ نیند خراب ہو اور اس دوران ویکسین لگوائی جائے تو اینٹی باڈیز میں کمی کے اثرات دو ماہ تک بھی برقرار رہ سکتے ہیں۔ تاہم اس کے مزید اثرات پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

ذہنی امراض کے ریکارڈز کی قانونی فروخت کا انکشاف

1-3.png

ہم میں سے اکثر اس بات کو جانتے ہیں کہ جو کچھ ہم آن لائن پوسٹ کرتے ہیں وہ عوام سے چھپا نہیں ہوتا تاہم بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی جسمانی اور ذہنی صحت سے متعلق معلومات ان کے ڈیجیٹل ریکارڈ کی بنیاد پر فروخت کی جا رہی ہیں۔

ڈیوک یونیورسٹی کے سانفورڈ اسکول آف پبلک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق ڈپریشن، اضطراب، پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس، اور بائی پولر ڈس آرڈر کے مریضوں کے نام، پتے اور ادویات کی معلومات آن لائن ڈیٹا مارکیٹنگ کو فروخت کی جاتی ہیں۔
ڈیوک کی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ دماغی صحت کے ریکارڈز کو منظم کرنے کے لیے استعمال ہونے والی تھرڈ پارٹی موبائل ایپس اکثر ’بروکرز‘ کو معلومات فروخت کرتی ہیں، مزید شواہد کے لیے محققین نے ڈیٹا بروکرز سے رابطہ کیا اور پتہ چلایا کہ 11 کمپنیوں نے ذہنی مریضوں کی معلومات کے بارے میں ڈیٹا فروخت کیا جس میں اینٹی ڈپریسنٹس ادویات جو لوگوں نے لیں اور وہ حالات کی تفصیلات تھیں جن کا مریض کو سامنا رہا جیسے بے چینی، بے خوابی، الزائمر کی بیماری، مثانے پر قابو پانے میں مشکلات وغیرہ۔
ڈاکٹر آف سائیکالوجی، اور نیویارک کی ایڈیلفی یونیورسٹی کی پروفیسر، ڈیبورا سیرانی نے ہیلتھ لائن کو بتایا کہ اس سے قطع نظر کہ یہ کافی تشویشناک ہے، اس کے باوجود یہ سب کچھ قانونی اجازت سے اور برسوں سے ہورہا ہے اور عام لوگوں کے سامنے ہورہا ہے۔

ذیابیطس کے مریض پھل اور سبزیاں کھا کر کئی امراض سے بچ سکتے ہیں

123-561.jpg

وسٹن: پھل اور سبزیاں صحت و غذائیت کا خزانہ ہوتی ہیں اور اب ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ذیابیطس کے شکار افراد پھل اور سبزیاں کھاکر خود کو ذیابیطس، بلڈ پریشر اور کینسر جیسے جان لیوا امراض سے بچاکر عرصہ حیات بڑھا سکتے ہیں۔

ہارورڈ ٹی ایچ چین اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ماہرین نے ایک تحقیق سے معلوم کیا ہے کہ ذیابیطس کے مریض گوشت ک یجائے کم کاربوہائیڈریٹس کی غذائیں، پھل اور سبزیاں کھا کر کئی امراض کا خطرہ کم کرسکتے ہیں اور اپنی عمر بڑھا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں ذیابیطس کے لگ بھگ 10 ہزار مریضوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔
لمبے عرصے کے فالواپ کے دوران کل 900 افراد کو کینسر ہوا اور 1400 افراد امراضِ قلب کے شکار ہوئے۔ ان میں سے جن افراد نے کم کاربوہائیڈریٹس کو اپنایا ان میں موت کی کم وجہ سامنے آئی جو ایک اہم بات ہے۔ سروے میں شامل تمام افراد ذیابیطس کے مریض تھے اور کیلوریز کا 30 تا 40 فیصد حصہ کاربوہائڈریٹس سے حاصل کررہے تھے۔ جن میں سفید ڈبل روٹی اور سفید چاول اور آٹا وغیرہ شامل ہے۔
دوسری جانب ایک طویل عرصے سے ذیابیطس کے شکار مریضوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی تھی جو مکمل اناج، پھل اور سبزیاں کثرت سے کھارہی تھیں اور ان میں امراضِ قلب اور سرطان کے آثار نہ تھے۔
تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ذیابیطس کے مریض پھل اور سبزیاں کھا کر اپنی صحت بہتر بناسکتے ہیں اور یوں زندگی بڑھا سکتے ہیں۔

جنگلی بلیو بیری بھی ’سپرفوڈ‘ سے کم نہیں

123-512.jpg

واشنگٹن: اگرچہ سیب کو صحت کے لحاظ سے درجہ اول کے پھل کا درجہ حاصل ہے لیکن اس دوڑ میں ماہرین نے اب بالخصوص جنگلی بلیو بیری کو بھی شامل کرلیا ہے۔

اگرچہ سیب کے علاوہ کھجور، اسٹرابری، کیلے وغیرہ کے بھی شاندار فوائد ہیں تاہم امریکی ماہرِ غذائیات، ڈینیئل کرمبل اسمتھ نے کہا ہے کہ ہلکی رنگت والی یعنی جنگلی بلیو بیریاں شاندار طبی فوائد رکھتی ہیں۔
اول ان میں فائبر کی زائد مقدار ہوتی ہے جو طویل عرصے تک پیٹ بھرنے کا احساس فراہم کرتی ہے۔ پھر اس میں اینٹی آکسیڈنٹس کی غیرمعمولی مقدار کینسر اور امراضِ قلب سے بڑھاتی ہے۔
کئی سائنسی تحقیقی تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ بلو بیری سے خلوی سطح پر ہونے والی تباہی اور پیچیدگی کم ہوسکتی ہے۔ پھر اس کے کئی اجزا سرطان کو روکتے ہیں اور امراضِ قلب کو بھی دور رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر اس کے اجزا جسمانی سوزش یا جلن (انفلیمیشن) کو بھی روکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق جنگلی بلیو بیری کا رنگ عام بلیوبیری کے مقابلے میں قدرے ہلکا ہوتا ہے، لیکن اس میں اینٹی آکسیڈنٹس کی مقدار روایتی بلیوبیری سے دوگنی ہوتی ہے۔ دوسری جانب اس میں وٹامن سی کی غیرمعمولی مقدار موجود ہوتی ہے جو جلد، بالوں اور ناخن کے لیے غیرمعمولی مفید ہوتی ہے۔
اس کے کئی اجزا ڈی این اے کی حفاظت کرتے ہیں اور غیرمعمولی طور پر کولیسٹرول گھٹاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ چھوٹی بیریاں شفا کا خزانہ بھی ہیں۔

یہ دوا بچوں میں بینائی کمزور ہونے کی رفتار سست کر سکتی ہے

123-511.jpg

انگ کانگ: موبائل فون اور ٹیبلٹ استعمال کرنے سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی تیزی سے بالخصوص دور کی نظر کی کمزوری کے شکار ہیں تاہم ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ایٹروپِن نامی آئی ڈراپس اس کیفیت کو سست ضرور کرسکتا ہے۔

دنیا بھر میں ایٹروپِن آئی ڈراپس مائیوپیا (دور کی نظر کی کمزوری) کو شرح کو کم کرنے کے لیے عام استعمال ہوتا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ کم ارتکاز یعنی 0.05 سے 0.01 فیصد ایٹروپِن والا مائع کم ازکم وقتی طور پر اس کیفیت کو سست کرسکتا ہے۔ اس ضمن میں جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ ایٹروپن آنکھوں کے پٹھوں اور عضلات کو پرسکون رکھ کر بصارت کے ارتکاز یعنی فوکس کو بہتر بناتی ہے۔
جامعہ ہانگ کانگ سے وابستہ ڈاکٹر جیسن یام اور ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ ایٹروپِن اب بھی ایشیا میں استعمال ہوتی ہے۔ اس ضن میں انہوں نے 4 سے 9 برس کے 474 بچوں کو شامل کیا ہے جنہیں 0.01 اور 0.05 فیصد ایٹروپِن کے قطرے دن میں ایک مرتبہ ٹپکائے گئے۔ اسی گروہ میں سے بعض کو صرف فرضی دوا کے قطرے بھی دیئے گئے۔
پہلا رضاکار بچرہ گیارہ جولائی 2017 کو شامل ہوا اور آخری بچے کو 4 جون 2020 میں شامل کیا گیا جبکہ 4 جون 2022 کو سب کا فالو اپ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جن بچوں کو 0.05 ایٹروپن دیا گیا ان میں نظر کی کمزوری کم دیکھی گئی جس کی شماریاتی اہمیت ہے۔
اس طرح اگر بچوں کی آنکھوں میں صرف 0.05 فیصد والے ایٹروپِن کے قطرے ٹپکائے جائیں تو اس سے اگلے چند برس تک نظر کی کمزوری کو دور کیا جاسکتا ہے۔ دور کی بصارت میں کمی ایک غیرمعمولی کیفیت ہے جو پوری دنیا کا عارضہ بن چکا ہے۔ اب یہ حال ہے کہ 2050 تک دنیا کی نصف آبادی اس کا شکار ہوسکتی ہے۔
تاہم ڈاکٹروں نے خبردار کیا ہے کہ والدین ڈاکٹر کے مشورے کے بعد ہی ایٹروپِن استعمال کریں اور خود سے استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔

بھارت میں ایچ تھری این ٹو انفلوئنزا وائرس سے دو اموات

123-475.jpg

ممبئی: بھارت میں انفلوئنزا کی قدرے غیرمعروف قسم ایچ تھری این ٹو سے دو مریضوں کی ہلاکت کے بعد اس کےپھیلاؤ میں تیزی دیکھی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق نمی سےبھرپور موسم اور فضائی آلودگی سے انفلوئنزا اے کی ذیلی قسم کا وائرس ایچ تھری این ٹو تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جس سے اولین اموات کرناٹکا اور ہریانہ میں نوٹ کی گئی ہیں۔ نوئڈا میں فورٹس ہسپتال سے واقع انٹرنل میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر اجے اگروال کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے یہ نیا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔
لیکن ڈاکٹروں کو تشویش ہے کہ فلو کے واقعات غیرمعمولی طور پر زیادہ ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فضائی آلودگی سے ہٹ کر بعض ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس مرض کے شکار وہ افراد زیادہ ہورہے ہیں جو کووڈ 19 کے دوران امنیاتی قوت کھوچکے ہیں اور کورونا کے شکار ہوئے ہیں۔ آلودگی کے ماہرین کہتے ہیں بھارت کے شہروں میں غیرمعمولی فضائی آلودگی سے ایچ تھری این ٹو وائرس چپک جاتا ہے اور سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر لوگوں کو بیمار کررہا ہے۔

بچوں کو آزادانہ طور پر کھیلنے دیجیے ورنہ دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے

  • 123-474.jpg

فلوریڈا: امریکہ میں اسکول کے بچوں اور نو عمروں میں اس وقت ڈپریشن اور دماغی عارضے اپنے بلند ترین درجے پر ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اب ضروری ہے کہ بچوں پر غیر ضروری پابندیاں نہ عائد کی جائیں بلکہ انہیں آزادانہ طور پر کھیلنے اور کام کرنے کی اجازت ضرور دیجیے۔

جرنل آف پیڈیاٹرکس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق امریکی والدین بچوں کو ہمہ وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھتے ہیں اور ان پر طرح طرح کی قدغنیں لگاتے ہیں۔ اگر یہ عمل سخت اور دیرینہ ہو تو وہ نوعمر(ٹین) بچوں میں ڈپریشن، پریشانی (اینزائٹی)اور یہاں تک کہ خودکشی کے خیالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان میں غیرمعمولی یاسیت تو ضرور نوٹ کی گئی ہے۔
اگرچہ والدین کا بچوں پر توجہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اپنےبچوں کو منفی عادات اور خطرات سےبچانا چاہتے ہیں۔ لیکن بے جا روک ٹوک اور ان دیکھی زنجیر سے بچوں کو ہروقت کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ کھیلنے کودنے، آزادانہ طور پر خود اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے اور زندگی کے تجربات خود حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
فلوریڈا اٹلانٹک یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر ڈیود ایف ہورک لیونڈ اور ان کے ساتھیوں نے غورکیا ہے کہ والدین کی جانب سے بچوں کو ایسی آزادانہ سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں جن میں کچھ نہ کچھ خطرہ ہوتا ہے۔ اس سے بچے اپنی مرضی کا کھیل یا سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکتے۔ بالخصوص امریکہ میں اس کا رحجان بڑھا ہے اور بچوں میں خوداعتمادی اور حوصلہ کم ہوتا ہے۔
والدین اس کیفیت کا احساس نہیں کرسکتے ہیں بچے دھیرے دھیرے ڈپریشن اور پریشانی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ پھر اس سے خود بچے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ خاندان اور اپنے گھر میں مثبت کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔
پھر بچوں پر اسکول جانے، ٹیوشن اور ہوم ورک وغیرہ کا بھی بوجھ ہوتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات نےبھی کہا ہے کہ بچے اپنے کھیل خود بناتے ہیں اور ان کے اصول خود وضع کرتے ہیں۔ اس طرح وہ سیکھتے ہیں اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

پھل اور سبزیوں کا زائد استعمال، پروسٹیٹ کینسر سےبچاسکتا ہے

123-467.jpg

آسٹریلیا: ایک تحقیقی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ بالخصوص رنگ برنگی پھل اور سبزیاں کھانے سے پروسٹیٹ کینسر کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

اس ضمن میں یونیورسٹی آف ساؤتھ آسٹریلیا کے ماہرین نے زور دے کرکہا ہے کہ مرد حضرات اپنی خوراک میں شوخ رنگ کے پھل اور سبزیاں ضرور استعمال کریں۔ ان پھلوں اورسبزیوں میں ایسے خرد غذائی اجزا (مائیکرونیوٹریئنٹس) پائے جاتے ہیں جو پروسٹیٹ کے سرطان کے خطرے کو ٹال سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ’کینسرز‘ نامی جرنل میں شائع ہوئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کی قوسِ قزح اس سرطان کے شکار افراد کو تیزی سے روبہ صحت کرنے میں مدد دے سکتی ہے اور ریڈی ایشن علاج سے بحالی اور اس کے مثبت اثرات کو بڑھاسکتی ہے۔
اس کے لیے سائنسدانوں نے پروسٹیٹ مریضوں اور صحت مند افراد کے درمیان ایک موازنہ کیا۔ انہوں نے دونوں گروہوں کے پلازمہ (خون کے ایک جزو) کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ پروسٹیٹ کینسر کے مریضوں مین لیوٹائن، لائسوپین، الفا کیروٹین اور سیلینیئم کی کمی تھی جبکہ فولاد، سلفر اور کیلشیئم کی سطح زائد تھی۔
ماہرین پہلے ہی بتاچکے ہیں کہ اگر خون کےپلازمہ میں لائسوپین اور سیلینیئم کی مقدار کم ہو تو ریڈیائی علاج سے مریض کے ڈی این اے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر مردوں میں مردوں میں لائسوپین کی مقدار 0.25 مائیکروگرام فی ملی لیٹر اور سیلینئم کی مقدار 120 مائیکروگرام فی ملی لیٹر سے کم ہو تو اس سے پروسٹیٹ کینسر کا خطرہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔
یہ اہم اجزا پھلوں اور سبزیوں میں عام پائے جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رنگ برنگی سبزیوں اور پھلوں کو کھانے سے ان اہم اجزا کی کمی دور کی جاسکتی ہے۔ لائسوپین انگور، آڑو، ٹماٹر، خربوزے، تربوز، کرین بیری میں پایا جاتا ہے جبکہ سفید گوشت، انڈوں اور گری دار میووں میں سیلینیئم بکثرت ملتا ہے۔

لوگ جوکروں سے کیوں ڈرتے ہیں؟

123-466.jpg

ویلز: ایک نئی تحقیق میں سائنس دانوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ لوگوں کو ہنسانے کی غرض سے بنائے جانے والے جوکروں سے لوگ ڈر کیوں جاتے ہیں۔

جوکروں کا ڈر(جس کو کولروفوبیا کےنام سے جانا جاتا ہے) دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بڑوں اور بچوں میں پایا جاتا ہے۔ فرنٹیئرز اِن سائیکالوجی میں حال ہی میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز کے سائنس دانوں نے 64 ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1000 افراد کے ایک بین الاقوامی سروے سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔
تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ مطالعے میں شریک ہونے والے افراد کی نصف سے زیادہ تعداد کسی نہ کسی سطح پر کولرو فوبیا میں مبتلا تھی۔ تقریباً 5 فی صد افراد کا کہنا تھا کہ انہیں جوکروں سے انتہائی ڈر لگتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ضرورت سے زیادہ وضع کیے گئےچہرے کے خدوخال اور میک اپ کی وجہ سے چھپے ہوئے جذبات لوگوں میں ڈر کی بنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ ایک اور وجہ جو سامنے آئی اس میں جوکروں کا ڈراموں اور فلموں میں پیش کیا جانے والا منفی کردار ہے۔
سروے کے شرکاء کی جانب سے بتائی جانے والی ایک اور وجہ میں ان جوکروں کا مبینہ غیر متوقع رویہ بھی تھا۔

بھارت میں 75 سالہ شخص کے گردے سے 300 پتھریاں برآمد

123-419.jpg

یدرآباد دکن: بھارت میں 75 سالہ شخص کے گردے سے چھوٹی بڑی 300 سے زائد پتھریاں برآمد ہوئی ہیں جس پر خود ماہرین بھی حیران ہیں۔

کریم نگر سے تعلق رکھنے والے ایک عمررسیدہ کسان نے گردوں کی اطراف شدید تکلیف کی شکایت کی تو اسے حیدرآباد میں واقع ایشیئن انسٹی ٹیوٹ آف نیفرولوجی اینڈ یورولوجی (اے آئی این یو) لایا گیا۔ تو ڈاکٹروں نے فوری طور پر ایکسرے اور سی ٹی اسکین کئے جس سے معلوم ہوا کہ مریض کے گردوں میں پتھریاں کسی گچھے کی صورت میں موجود ہیں۔
ڈاکٹر تیف بندیگری نے بتایا کہ گردے میں پتھریوں کی جسامت عموماً 7 تا 15 ملی میٹر ہوتی ہے لیکن اس مریض کے جسم میں سات سینٹی میٹر تک کی بہت ساری پتھریاں دیکھی گئی ہیں جو مریض کو شدید تکلیف دے کر اسے بےچین کئے رکھتی ہیں۔
تاہم مریض ذیابیطس، بلڈ پریشر اور عارضہ قلب کا شکار بھی تھا جس نے مرض کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹروں نے جدید لیزر ٹیکنالوجی سے کی ہول سرجری کی اورگردوں سے تمام پتھریاں نکال باہر کیں۔ اس پیچیدہ اور تھکادینے والے آپریشن کے بعد 300 کے قریب پتھریاں نکالی گئی ہیں۔
مریض کو دوسرے ہی دن گھر روانہ کردیا گیا جہاں اب اس کی صحت تیزی سے بہتر ہورہی ہے۔

Top