تحریک عدم عدم اعتماد میں ایک نیا موڑ……اداریہ

وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد جمعرات کے روز قومی اسمبلی کا اجلا س شروع ہونے کے کچھ دیر بعد 3اپریل تک ملتوی کردیا گیا متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کے لیے نمبرنہ صرف پورے کرلیے گئے بلکہ وزیراعظم کے خلاف یہ تحریک آسانی سے کامیاب ہوگی اپوزیشن رہنمائوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کو اب مستعفیٰ ہوجانا چاہیے اس کے علاوہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے قابل قبول حل کی جانب پیش رفت کا امکان پیداہوگیا ہے اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن سے رابطوں کا سلسلہ بھی جاری بتایا جارہا ہے وزیراعظم اس حوالے سے کسی بھی ممکنہ حل کیلئے بات کیلئے رضا مند ہوگئے ہیں جبکہ اپوزیشن کی جانب سے ممکنہ حل کی صورت میں فیس سیونگ معاہدہ طے پایا جاسکتا ہے اپوزیشن نے اتفاق کرلیا تو اگلے 48گھنٹوں میں صورتحال کا حل نکل آئے گا جس کے بعد وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لی جاسکتی ہے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان فیس سیونگ معاہدہ کرانے کے لیے بیک ڈور رابطے شروع کردئیے گئے ہیں فریقین کے اتفاق رائے کی صورت میں نیا انتخابی اصلاحاتی پیکیج پارلیمنٹ میں پیش ہوگا متحدہ اپوزیشن نے معاہدے پر رضا مندی کا اظہار کیا تو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی جائے گی حکومت اور اپوزیشن کو موجودہ صورتحال سے نکالنے کے لیے فیس سیونگ معاہدے پر غورکیا جارہا ہے اور ایسے آپشن دئیے گئے ہیں جو دونوں کو قابل قبول ہوں ممکنہ فیس سیونگ معاہدے کے بعد قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کیا جائے گا اس کے علاوہ عمران خان کب تک وزیراعظم رہیں گے عبوری حکومت کی مدت کتنی ہوگی اور عام انتخابات کب کرائے جائیں گے اس پر بھی مشاورت کی اطلاعات ہیں حکومت کی جانب سے کی گئی انتخابی اصلاحات پر اپوزیشن کے اعتراضات دور کیے جائیں گے البتہ حزب اختلاف کے رضا مند ہونے تک کوئی چیز حتمی نہیں کہی جاسکتی دونوں فریقین کے اتفاق کے بعد مکمل پیکیج پارلیمنٹ میں لایاجائے گا جبکہ فیس سیونگ فارمولے پر عمل نہ ہونے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے ملکی سیاست میں اتارچڑھائو گزشتہ ادوار میں بھی دیکھا گیا البتہ اس مرتبہ صورتحال زیادہ تشویشناک دکھائی دے رہی ہے اگر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتما دکامیاب ہوجاتی ہے تو ملک کے دیگر صوبوں پر اس کے اثرات یقینی ہونگے خاص طورپر گلگت بلتستان اور آزادکشمیرمیں ابھی سے اندرون خانہ بیٹھک سجنا شروع ہوگئیں ہیں جمعرات کے روز روزنامہ بادشمال میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وفاق میں تبدیلی کے آثار دیکھ کر گلگت بلتستان کی سیاست میں بھی ہلچل کا شور سنائی دینے لگا، آزاد حیثیت میں الیکشن جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر نے والے آٹھ کے قریب ممبران سے اپوزیشن جماعتوں کے رابطوں کی خبریں گردش کرنے لگی جبکہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر الیکشن ہارنے والے کئی افراد اور سابق حکومتوں میں وزارت سمیت اہم عہدوں پر فائز افراد نے بھی سر جوڑ لئے بلوچستان طرز کی علاقائی پارٹی بلتستان عوامی پارٹی کے نام پر جماعت کی تشکیل کے لیے مشاورت جاری، وفاق میں تبدیلی کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی سیاسی آندھی چلنے کے امکانات روشن ہو گئے جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کئی سینئر پارٹی رہنمائوں کے نام گورنر کے امیدوار کے طور پر سامنے آرہے ہیں، باخبر سیاسی ذرائع کے مطابق ماضی کے دو ادوار کی نسبت اس مرتبہ دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن وفاق میں تبدیلی کی صورت میں گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو برقرار نہ رکھنے میں متفق ہیں ان دونوں جماعتوں کا موقف ہے کہ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چرایا ہے اور اسی وجہ سے یہ دونوں جماعتیں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بھی تبدیلی کی خواہشمند اور متفق ہیںپہلے مرحلے میں ان ہاوس تبدیلی کا آپشن اپنایا جائے گا جس کے لیے گزشتہ ایک ماہ سے اندرون خانہ رابطوں کا سلسلہ جاری ہے
صوبائی حکومت گلگت بلتستان کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا مگر حکومتی کارکردگی کے ثمرات سے عام آدمی مستفید ہونے سے قاصر نظر آرہا ہے جبکہ صوبائی وزراء اور وزیراعلیٰ کارکردگی کے بلند وبانگ دعوے کرتے دیکھے جارہے ہیں گزشتہ روز وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ گلگت بلتستان میں عدم اعتماد نام کی کوئی چیز نہیں حکومت مخالف افراد اس طرح کی خبریں پھیلاکر عوام میں بے چینی اور بے یقینی کی صورتحال پیدا کرنے چاہتے ہیں وزیراعلیٰ خالد خورشید خاصے پراعتماد اور عدم اعتماد کی خبروں کو انہوں نے یکسر مسترد کردیا مگر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گلگت بلتستان حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سامنے لانے کے لیے اندرون خانہ رابطوں کا سلسلہ ابھی سے جاری ہے جبکہ پیپلزپارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نے گزشتہ دنوں اپنے اخباری بیان میں کہا تھا کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جلد لائیں گے اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر اور سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن بھی خاصے متحرک نظر آرہے ہیں البتہ وفاق میں موجودہ سیاسی صورتحال کے خاتمے کے بعد ہی گلگت بلتستان اور آزادکشمیرمیں عدم اعتماد کے حوالے سے معاملات کھل کر سامنے آسکتے ہیں ۔

شیئر کریں

Top