اسٹیٹ بینک سے مشاورت؛ ایکس چینج کمپنیوں کا ڈالر سے ’’کیپ‘‘ ہٹانے کا فیصلہ

123-688.jpg

کراچی: ایکس چینج کمپنیز نے گورنر اسٹیٹ بینک سے مشاورت کے بعد ڈالر پر ’’کیپ‘‘ ہٹانے کا متفقہ فیصلہ کرلیا، یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر ایکس چینج کمپنیز کو ڈالر ’’فری فلوٹ‘‘ کرنے کے گرین سگنل ملنے کے بعد کیا گیا ہے۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چئیرمین ملک محمد بوستان نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ بدھ کو اسٹیٹ بینک حکام کو اعتماد میں لینے کے بعد اس فیصلے پر فوری طور پر عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کو طلب و رسد کی بنیاد پر مارکیٹ فورسز پر چھوڑدیا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کے نمائندوں کی ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عنایت حسین کے ساتھ بدھ کو ملاقات طے ہے جس میں ڈالر کو مارکیٹ بیسڈ کرنے سے پیدا ہونے والی صورتحال پر لائحہ عمل طے کیا جائے گا، اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی عدم دستیابی سے بلیک مارکیٹ وجود میں آگئی جو روز پروان چڑھ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک سفر پر جانے والوں صحت و تعلیم کے لیے جن لوگوں کو ڈالر کی ضرورت ہوتی تھی ان کے لیے ڈالر کا حصول مشکل ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ایسے ضرورت مند افراد بھی بلیک مارکیٹ رجوع کرنے لگے نتیجتا مارکیٹ میں گھبراہٹ کی فضاء بڑھتی جارہی تھی جس سے اسٹیٹ بینک اور ایکس چینج کمپنیوں کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
ملک بوستان نے بتایا کہ ایسوسی ایشن اس ضمن میں گورنر اسٹیٹ بینک کو اعتماد میں لے چکی ہے تاہم تفصیلی معاملات بدھ کو ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں طے کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایکس چینج کمپنیاں ورکر ریمی ٹینس کی مد میں ترسیلات کو جو کہ تقریباََ 10 سے 15 ملین ڈالر ہیں انہیں انٹربینک مارکیٹ میں سرینڈر کرتی ہیں پہلے ایکس چینج کمپنیاں ترسیلات زر کا 80 فیصد عوام کو فروخت کرتی تھیں اور 20 فیصد بینکوں کو فراہم کیے جاتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ بلیک مارکیٹ میں گزشتہ 2 دنوں میں ڈالر کی قیمت 5 روپے بڑھ گئی ہے، ہمیں بلیک مارکیٹ کا مقابلہ کرنا ہے جس کا واحد حل ڈالر کو مارکیٹ بیسڈ کرنا ہے اس فیصلے سے جلد ہی ڈالر کے بحران پر قابو پایا جاسکے گا اور ساتھ ہی انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ڈالر کی قدر کا فرق گھٹ جائے گا، ترسیلات زر کی آمد بھی بڑھے گی جو گزشتہ 3 ماہ میں 3 ارب ڈالر سے گھٹ کر 2 ارب ڈالر کی سطح پر آگئی ہے یہی وجہ ہے کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر فرق 20 سے 30 روپے ہوگیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حوالہ آپریٹر بھی گرے مارکیٹ سے ڈالر حاصل کررہے ہیں، ایکسپورٹر نے بھی اپنی برآمدی آمدنی کی ترسیلات روک رکھی ہیں اور انہوں نے انڈر انوائس کرلیا ہے، ایکسپورٹرز 10 ڈالر کی پراڈکٹ کو 5 ڈالر میں ڈیکلیئر کرکے آٹو میٹکلی وہاں شفٹ کر دیتے ہیں اس پر بھی حکومت کو نظر رکھنی پڑے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قرض بحالی پروگرام کے لیے ڈالر کو فری فلوٹ کرنا آئی ایم ایف کی لازمی شرط ہے، اس فیصلے پر عمل درآمد سے ڈالر کی قدر اگرچہ بڑھ جائے گی مگر بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہوگا اور ڈالر کی ترسیلات ہنڈی حوالے کے بجائے بینکنگ چینل اور اوپن مارکیٹ سے ہوں گی۔

شیئر کریں

Top