امام مسجد اورظلم کی حکومت۔۔۔روہیل اکبر

پرانے پاکستان میں خود کشیوں کا موسم شروع ہو چکا ہے حالات کہاں سے کہاں جا رہے ہیں اور ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے کسی معجزے کے انتظار میں ہیں ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت واپس لانے والے پھر متحد ہو کر مہنگائی کا طوفان لے آئے ہیں اور ہم انہیں اپنا مسیحا تسلیم کررہے ہیں عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں عوام کی خوشحالی اور ملک کی ترقی کا روشن اور سنہرا دور صرف چند مہینوں کے اندر تاریکی میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا ہے جی ہاں وہی دور جب 14 گھنٹے کی بدترین لوڈ شیڈنگ کے خلاف پنجاب میں خادم اعلی ہاتھ والا پنکھا پکڑے اپنی ہی حکومت کے خلاف مینار پاکستان میں احتجاج کیا کرتے تھے تو آج وہ خود وزیر اعظم اور بیٹا وزیر اعلی ہے علی بابا اور چالیس چور کہتے کہتے وہ خود انہی کے بدولت وزیر اعظم بن گئے اور بیٹے کو وزیر اعلی بنوا لیا اپنے اپنے دور میں ایک دوسرے پر اربوں روپے لوٹ مار کے مقدمات بنانے والے آج کیسے بغل گیر ہوچکے ہیں اور ہماری بے حسی کی انتہا دیکھیں ہمارے اربوں روپے لوٹنے والے ہی ہم پر مسلط کردیے گئے تنکا تنکا جوڑ کر بڑی محنت سے آشانہ بنا تھا جو پی ڈی ایم نے ایک ہی جھٹکے میں بکھیر دیا مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ پچھلے 74 سالوں میں اتنی نہیں ہوئی جتنی اب ہے ذرا آج سے پانچ سال پرانے پاکستان کا تصور کریں خود کشیاں، چوریاں، ڈاکے، لوٹ مار اور فراڈ جتنا عروج پر تھا اب پھر وہی صورتحال بنتی جارہی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یکم جولائی سے اب تک تین افراد ٹرین کے نیچے سر دیکر خود کشی کر چکے ہیں پہلے ڈکیتی کرتے وقت ڈاکو مال لوٹا کرتے تھے اب وہ پہلے قتل عام کرتے ہیں پھر مال لوٹتے ہیں ایک اور ستم ظریفی بھی دیکھیں کہ جنکی تنخواہ 40 ہزار سے کم ہے انکو دو ہزار ماہانہ اضافی ملے گا اور جنکی تنخواہ پچاس ہزار سے زیادہ ہے وہ ٹیکس ادا کرینگے مزے کی بات تو یہ ہے جنکی تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے اوپر ہے انکا پٹرول، ڈیزل،گھر کا خرچہ،گیس، بجلی، بچوں کے اسکول فیس،ہسپتال اور ایمبولینس سب مفت ہے اسکو کہتے ہے میثاق جمہوریت اور تو اور ہمارے امام مسجد کی تنخوا 8ہزار سے شروع ہوکر 15ہزارپر آکر ختم ہو جاتی ہے بازار جوتا خریدنے گیا ایک خوبصورت چہرہ، سفید ٹوپی، سنت سے سجی داڑھی اور سفید لباس میں ملبوس انسان نے خوش آمدِید کہتے ہُوئے مختلف ڈیزائن دکھائے میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایک مدرسے میں معلّم کے پیشے سے منسلک تھے اور قریب کے مسجد میں امام ہیںبس اس مہنگائی کے باعث گھریلو حالات سے مجبور ہو کر رزقِ حلال کی تلاش میں ایک امام اور مدرسے کا استاد ہونے کے ناطے اپنی تمام تر حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئے اس طرف رخ کیا اور یہاں سے مجھے ماہانہ 17 ہزار مِلتے ہیں روزانہ کا سَو روپیہ اور کمیشن الگ ہے جبکہ مسجد سے کل تنخواہ 8 ہزارملتی ہے میں خاموش ہو گیا میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے مجھ سے صرف اتنا ہو سکا کہ جوتوں کا ڈبہ ان کے ہاتھ سے لے لیا وہ اصرار کرتے رہے کہ میں پہنا کر چیک کرواتا ہوں میری ڈیوٹی ہے لیکن میں نے ایسا نہیں کرنے دِیا میرا ضمیر مجھے بار بار کہہ رہا تھا کہ اِن ہاتھوں کو بوسہ دو!کسی وقت یہ ہاتھ مُقَدَّس کتابیں قرآن، تفاسیر،احادیث، مسائل اور دیگر اسلامی کتب اُٹھایا کرتے تھے لیکن آج وہی ہاتھ جوتے اور چپل اٹھانے پر مجبور ہے انہوں نے بھی مدرسہ میں اتنی ہی کتابیں پڑھی ہیں اتنے ہی سال لگائے ہیںصرف اسکا نام مدرسہ تھا دین سیکھنے اور سکھانے والوں کو اتنی بڑی سزا تو نہ دیں وہ بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں ہم نکاح سے لیکر جنازے تک مولوی کے انتظار میںہوتے ہیں وہ پانچ وقت مسجد میں ہمیں نمازیں پڑھاتا ہے ہمارے بچوں کو دینی تعلیم سے آشنا کرتا ہے اسے بھی رہنے کو مکان چاہیے بچوں کے لیے تعلیم کے اخراجات چاہیے اور والدین کے علاج کے لیے ادویات چاہیے مگر ہم نے امام صاحب کو کیا بنا رکھا ہے حالانکہ امام ایک اسلامی قیادت کا عہدہ ہے اس تناظر میں امام صاحب اسلامی عبادت کی خدمات کی قیادت کر سکتے ہیں نماز کی امامت کر سکتے ہیں کمیونٹی لیڈر کے طور پر خدمات سرانجام دے سکتے ہیں اور مذہبی رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں حدیث کے مطابق جس شخص کا انتخاب بطورامام کیا جائے وہ قرآن و سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو اور اچھے کردار کا حامل ہو یہ اصطلاح اسلام میں ایک تسلیم شدہ مذہبی اسکالر یا اتھارٹی کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے لہٰذا کسی اللہ والے سے دوستی لگائیں اسکی گزر بسر جانیں اور اپنی ذمہ داری نبھائیں امام مسجد، عالم دین یا کسی بھی اللہ والے کے گھر کے افراد اور اسکی آمدن پوچھ کے اپنے گھرجیسا بجٹ ذرا بنا کے دیکھیں ہم سیکھ نہیں سکتے تو سکھانے والے کی ہمت بن کہ صدقہ جاریہ تو کما سکتے ہیں ثواب کے لالچ میں ہی سہی نیکی کی تجارت کرلیں آخر میں عمیر علی انجم کی ایک نظم جو آنے والے حالات کا انکشاف کررہی ہے ۔
یہاں سے ختم ظالم کی حکومت ہونے والی ہے
شواہد صاف کہتے ہیں بغاوت ہونے والی ہے
لٹیروں کی سیاست کا ہے سورج ڈوبنے والا
طلوع اس شہر میں تازہ قیادت ہونے والی ہے
وہ دن آنے ہی والے ہیں ملے گا حق غریبوں کو
ہمیں حاصل وہی ماضی کی عظمت ہونے والی ہے
زمیں کے ناخدائوں نے ستم کی انتہا کردی
سمجھ لو آسماں والے کی رحمت ہونے والی ہے
نقاب آخر اُترتے جارہے ہیں سب کے چہروں سے
عیاں اس قوم پر ساری حقیقت ہونے والی ہے
عمیر انجم قیامت تو خدا جانے کب آئے گے
قیامت سے مگر پہلے قیامت ہونے والی ہے۔

شیئر کریں

Top