حملے سے قبل شہید بینظیر کے آخری الفاظ کیا تھے ؟

273057_5185684_updates-1.jpg

شہید بے نظیر بھٹو کی معتمد خاص جنہیں ان کی پولیٹیکل سیکرٹری کی حیثیت بھی حاصل تھی، انہوں نے جنگ کو دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی زندگی کا آخری جلسہ کرنے کے بعد بی بی انتہائی شاداں اور مسرور تھیں، بعض خدشات کے تناظر میں کسی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آنے پر وہ بار بار اللہ کا شکر بھی کر رہی تھیں۔

ناہید خان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ جلسہ گاہ سے باہر نکلنے کے بعد ان کے موبائل پر کسی کا فون آیا تھا، حقیقت یہ تھی کہ انہیں جلسہ گاہ میں ہی اس بات کی اطلاع مل گئی تھی کہ میاں نواز شریف جو ایکسپریس وے پر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ٹرک پر سوار ایک بڑے جلوس کی شکل میں اسلام آباد آرہے تھے، ان کے قافلے پر حملہ ہوا ہے۔

انہوں نے گاڑی میں بیٹھتے ہی سب سے پہلے میاں نواز شریف کی خیریت کے بارے میں استفسار کیا اور ان کے شہید ہونے والے کارکنوں کا افسوس کرنے کیلئے ان کا فون ملانے کیلئے کہا۔

ناہید خان کے مطابق میں ابھی میاں صاحب کا نمبر ملا ہی رہی تھی کہ انہوں نے ہاتھ سے روک دیا کیونکہ کارکنوں نے گاڑی کو اپنے حصار میں لیا ہوا تھا، ڈھولک کی تھاپ پر محو رقص اور جئے بھٹو کے والہانہ انداز میں فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے کارکنوں کو دیکھ کر بی بی نے کہا کہ اتنے شور میں بات نہیں ہوسکے گی۔

یہ کہتے ہوئے وہ یکدم کھڑی ہوئیں اور گاڑی کے سن روف سے جسم کا بالائی حصہ باہر نکالا انہیں دیکھ کر کر کارکنوں کا جوش بڑھ گیا، بی بی ہاتھ ہلا ہلا کر ان سے وابستگی کا اظہار کرتی رہیں، بس یہی موقع تھا جس کا قاتلوں کو انتظار تھا، نشانہ حیرت انگیز طور پر صحیح تھا اور بی بی اپنی نشست کے دائیں طرف گر گئیں، بائیں طرف مخدوم امین فہیم بیٹھے تھے۔

اس حوالے سے کیے گئے بعض سوالات کے جواب میں ناہید خان نے جو محترمہ سے30 سالہ رفاقت کی یاداشتوں پر کتاب تحریر کر رہی ہیں کہا کہ تمام تفصیلات اور انکشافات میری کتاب میں ہوں گے۔

شیئر کریں

Top