گلگت بلتستان حکومت بلیک میل نہیں ہوگی،،،،،،،،،،اداریہ

download-1-5.jpg

حالیہ دنوں ملک سیاسی بحران سے گزر رہا ہے پی ڈی ایم اور تحریک انصاف میں دوریاں مزید بڑھ چکی ہیں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے بعد تحریک انصاف ایک بار پھر پر عزم نظر آ رہی ہے ملک کے تین صوبوں اور گلگت بلتستان سمیت آزاد کشمیر میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین جلد قومی انتخابات کا مطالبہ کرنے سمیت ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے الیکشن ہی واحد راستہ قرار دے رہے ہیں دوسری جانب پی ڈی ایم مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد کا بار بار اعلان کرتے دیکھائی دے رہی ہے اس ساری صورتحال میں ملک بھر کے عوام تذبزب کا شکار اور ڈالر بے قابو اور روپے کی بے قدری بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد گلگت بلتستان میں بھی تحریک عدم اعتماد کی باتیں گردش کرنے لگی تھیں اور اپوزیشن لیڈر عدم اعتماد کے بیانات دیتے چلے آ رہے تھے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عدم اعتماد کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کے بعد گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ایک بار پھر اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے حوالے سے پرامید نظر آ رہی ہے دوسری جانب اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عدم اعتماد کا نعرہ لگانا ترک کر دیا ہے بہرحال سیاسی صورتحال خاصی گھمبیر نظر آ رہی ہے نہ تو وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد لانے کے حوالے سے وفاقی حکومت سنجیدہ نظر آ رہی ہے اور نہ ہی تاحال نئے گورنر کی تعیناتی کے حوالے سے کوئی کام ہوتا نظر آ رہا ہے اس ساری صورتحال کے حوالے سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ محرم الحرام کے بعد سیاسی دائو پیج شروع ہو کر رہیں گے گزشتہ روز وزیر اطلاعات گلگت بلتستان فتح اللہ خان نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت حفیظ اور امجد سے بلیک میل نہیں ہو گی ان دونوں نے وفاق میں حکومت آتے ہی ملکر سہانے خواب دیکھے اور عہدے بھی تقسیم کردیئے تھے جو تخت پنجاب کے ساتھ ہی چکنا چور ہوگئے موجودہ صورت حال میں وفاق کے ساتھ انتخابات حفیظ الرحمن کی خواہش ہوسکتی ہے البتہ گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنایا جائے تو ملک کے ساتھ انتخابات کرانے کیلئے تیار ہیں حفیظ اور امجد کو چیلنج کرتا ہوں کہ میرے ساتھ وہ سیاسی پاور، ریفارمز میں مقابلہ، ڈیلور کرنے اور سٹریٹ پولیٹکس میں مقابلہ دیکھانے کیلئے لالک جان اسٹیڈیم میں جلسہ کریں اور مجھ سے زیادہ لوگ جمع کریں توان کو مان جائوں گا فتح اللہ خان نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزیدکہا کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت کو ڈیڑھ سال مکمل ہوگئے اس دوران تمام سرکاری اداروں کے اندر بالخصوص تعلیم، صحت اور سیاحت میں تاریخی ریفارمز کے ساتھ ساتھ بہتری اور بجٹ میں اضافہ کیاگلگت بلتستان میں اس سے قبل حکومتوں نے لوکل کنٹریکٹر کے زریعے غیر معیاری اور انسان دشمن ادویات لاتے رہے جس کا ہم نے خاتمہ کیا انہوں نے کہا کہ حفیظ الرحمن کہتے ہیں گلگت بلتستان میں اداروں میں ٹیسٹ لینے کی صلاحیت نہیں ہے تو انہیں بتانا چاہتا ہوں پانچ سال وزیر اعلی رہے اداروں کو مضبوط کیوں نہیں کیا اور آج ایسی باتیں کر کے کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے سابقہ ادوار میں گلگت بلتستان میں بجلی کے منصوبے لگے ہوتے تو آج لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی ۔
سیاسی رہنمائوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات کوئی نئی بات نہیں صوبائی وزیر اطلاعات کا شمار پی ٹی آئی کے خاصے متحرک رہنمائوں میں ہوتا ہے انہوں نے ہر موقع پر فرنٹ لائن پر آ کر اپوزیشن کا مقابلہ کیا ایک بار پھر انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے صوبائی صدور سے بلیک میل نہیں ہو گی اب دیکھنا یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے متحدہ اپوزیشن رہنما صوبائی حکومت کے خلاف کیا حکمت عملی بناتے ہیں یہ درست ہے کہ کئی ایک سیاسی معاملات پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ گلگت بلتستان ایک پیج پر نظر نہیں آ رہے ن لیگ کے صوبائی صدر وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے بجائے موجودہ چیف منسٹر کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام وزیراعلیٰ کے خلاف جلد عدم اعتماد کی تحریک لانے پر متفق ہیں دوسری جانب حکومتی چھتری تلے آج بھی ایک فارورڈ بلاک خاموشی کے ساتھ بیٹھا نظر آ رہا ہے جس نے اس سے قبل بھی اپنی پالیسی واضح نہیں کی البتہ وہ مائنس خالد خورشید کے حوالے سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کو آگاہ کر چکے تھے مگر تحریک انصاف کے سربراہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ خالد خورشید ہی وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ہوں گے اس کے بعد فارورڈ بلاک کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہو گئی اپوزیشن رہنما واضح سیاسی حکمت عملی بھی عوام کے سامنے لانے سے قاصر نظر آ رہے ہیں البتہ آئندہ آنے والے دن ملک کی سیاست کے حوالے سے اہم بتائے جا رہے ہیں۔

شیئر کریں

Top