گلگت بلتستان عبوری آئینی صوبہ پیپلزپارٹی کے بیانئے کی فتح ……تحریر…… طالب حسین

گلگت بلتستان کی ستر سالہ محرومیوں کے خاتمے کے حوالے سے بلاآخر کفر ٹوٹا خدا خدا کر کر کے مصداق ایک بڑا قدم اٹھانے کے لئے عملی اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں۔ گزشتہ سات دہائیوں تک آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا رہنے والا علاقہ اب عبوری آئینی صوبہ بننے جا رہا ہے۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حیثیت اس علاقے کو بہت حوالوں سے ممتاز بناتی ہے۔ دفاعی اور سیاحتی لحاظ سے اہم ترین ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کی اہمیت کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب چین اور پاکستان کی جانب سے ایک بہت بڑے معاشی کایا پلٹ منصوبے سی پیک کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے ڈیم دیامر بھاشا کی تعمیر بھی گلگت بلتستان میں ہونے کی وجہ سے اس خطے کی اہمیت میں اضافہ ہوا ۔ گلگت بلتستان میں بہنے والے دریائوں اور ندی نالوں سے اس قدر بجلی پیدا کی جا سکتی ہے کہ پورے ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن ہے اسی طرح سیاحت کو فروغ دے کر وطن عزیز کی معاشی حالت سنواری جا سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان وسائل کو بروئے کار لا کر ملک کی تقدیر بدلنا تو درکنار آج تک نہ تو اس خطے کے عوام کی محرومیاں دور کی جا سکیں نہ ہی یہاں کے عوام کو ان وسائل سے استفادہ حاصل کرنے کے لئے کوئی اقدامات کئے گئے۔ گلگت بلتستان کی محرومیوں کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس کی قیادت نے ہمیشہ کوئی نہ کوئی عملی اقدامات اٹھائے ہیں۔ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید نے اس علاقے سے راجگیری جیسے ظالمانہ اور جابرانہ نظام کا خاتمہ کیا اور لوگوں کو سوچنے سمجھنے اور بولنے کا شعور دیا۔ دراصل یہ گلگت بلتستان کے عوام کے حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت کا نقطہِ آغاز تھا۔ اس کے علاہ گندم سمیت دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا میں سبسڈی دی۔ اس کے بعد بینظیر بھٹو شہید نے نوے کی دہائی میں پہلی بار گلگت بلتستان میں جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے اور عوام کو اپنے نمائندوں کے چنائو کا اختیار دیا۔ اس کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری نے گلگت بلتستان کو سلف گورننس آرڈیننس کے تحت نیم آئینی اور انتظامی صوبے کا سیٹ اپ دیا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے کئے جانے والے ان بتدریج اقدامات سے نہ صرف خطے کے عوام کی محرومیوں میں کمی آئی بلکہ یہاں سیاسی کلچر پروان چڑھا اور مقامی قیادت ابھر کر سامنے آنے لگی۔ تاہم اس کے باوجود گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کی پارلیمان اور سینیٹ سمیت دیگر اہم فورمز میں نمائیندگی سے محروم رہے۔ پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کی موجودہ صوبائی قیادت خصوصا صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان کے عوام کے حقِ ملکیت اور حقِ حاکمیت کے حوالے سے عوامی سطح پر تحریک چلائی اور یہاں کے عوام میں اس حوالے سے شعور و آگہی پیدا کی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر مرکزی قیادت کو گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کے حوالے سے قائل کیا جس کے بعد 2018 میں پاکستان پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کو عبوری آئینی صوبہ بنانے کا مطالبہ اپنے مرکزی منشور میں شامل کر لیا۔گلگت بلتستان کے عوام قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید، محترمہ بینظیر بھٹو شہید، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر قیادت کے تاقیامت مشکور و ممنون رہیں گے کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو ہمیشہ خصوصی اہمیت دی اور آئینی اور انتظامی مسائل کو بتدریج حل کیا۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اس بات پر بھی فخر ہے کہ انہیں امجد حسین ایڈووکیٹ کی صورت میں ایک نڈر، دور اندیش، عوام دوست، ہمدرد اور اعلی سیاسی بصیرت کا حامل رہنما میسر آیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہ پاکستان کی واحد وفاقی جماعت ہے جس نے گلگت بلتستان کے عوامی مطالبے کو اپنے مرکزی منشور میں شامل کر لیا۔ آج ریاستِ پاکستان اور تمام سیاسی جماعتوں نے پیپلزپارٹی کے عبوری آئینی صوبے کے بیانئے کو نہ صرف تسلیم کر لیا بلکہ عنقریب اس پر عملدرآمد کے لئے آئین پاکستان کی بعض شقوں میں ترمیم کر لی جائے گی۔ انشا اللہ اب وہ وقت قریب ہے جب گلگت بلتستان کے عوام کو ملک کے سب سے بڑے آئینی فورمز پارلیمنٹ اور سینیٹ میں نمائندگی ملے گی اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے دائرہ کار بھی شامل ہو جائیں گے۔

شیئر کریں

Top