گندم کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں،اپوزیشن ساتھ دے یا نہ ،سخت فیصلے کرینگے،وزیر اعلیٰ

g6-8.jpg

گلگت(شہزاد حسین سے) وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے گلگت بلتستان اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ گندم کی قیمتیں بڑھانے کے حوالے سے اگلے کابینہ اجلاس میں فیصلہ کرنے جارہے ہیں ہمارے پاس اس وقت دو آپشن ہے یا تو ہم گندم کا بحران برداشت کرے یا ہم وفاق سے بات کرکے گندم کی سولہ لاکھ بوریاں لانے کے لیے گندم کی فی بوری پہ اضافہ کرے 8 ارب گندم سبسڈی میں سولہ لاکھ گندم پوری نہیں آسکتی ہماری ٹیم دو تین دنوں میں وفاق جارہی ہے وہ اس پر بات کرینگے اور اگلے اجلاس میں فیصلہ کرینگے گریڈ سترہ سے اوپر اور تمام وزرا اور سرمایہ دار لوگ سبسڈی لینے کے حقدار کسی بھی طرح نہیں ہم ان پر سبسڈی ختم کرینگے ویسٹ مینجمنٹ کمپنی یکم ستمبر سے شہر میں صفائی کے فیس لینا شروع کرے گی ویسٹ مینجمنٹ کے تیس کروڈ روپے ہمارے بجٹ کا حصہ ہے گلگت بلتستان کے عوام اس مسلے پر تعاون کرے ریوینیو اتھارٹی بل یہ کوئی وفاق کو ٹیکس نہیں جاتا ہے یہ سروس ٹیکس ہیں اس پر اپوزیشن کے تمام اراکین ہمارا ساتھ دیں گلگت بلتستان میں دو چیزیں ہمیں خراب کررہی ہے جعلی فرقہ پرستی اور جعلی قوم پرستی جب بھی گلگت بلتستان اڑان بھرتا ہے یہ لوگ ٹانگیں کھنچتے ہیں اگر اس ہائوس سے ایک متفقہ فیصلہ ہوا تو جو لوگ انجانے میں گلگت بلتستان کی تعمیر وترقی میں رکاوٹ بنتے ہیں ان کا منہ بند ہوگا انہوں نے کہا کہ اپوزشن ساتھ دے یا نہ مشکل اور سخت فیصلے ہم کرینگے انہوں نے کہا کہمستقبل کیلئے منصوبہ بندی ضروری ہے ، جولائی سے اب تک 95 فلڈ آئے ہیں مختلف ایریاز میں اگر ہم اس میں سرکاری املاک اور پاور سٹیشن کا حساب کریں تو ایک ایک فلڈ کروڈوں کے حساب سے ہے اور جولائی سے اب تک حساب کرے تو یہ اربوں روپے بنتے ہیں اس وقت ہمارے پاس 47 آرب روپے کا بجٹ ہے جس میں نوے فیصد بجٹ تنخواہوں میں چلا جاتا ہے باقی چھ ارب کا بجٹ آپریشنل بجٹ کے لیے ہے جس میں ہمیں لا اینڈ آرڈر کو بھی دیکھنا ہے گلگت بلتستان میں جو سالانہ سیلاب آتا ہے وہ مخصوص جگہوں پر آتا ہے ہم نے اب ہوم ڈیپارٹمنٹ کو ٹی او آرز دئے ہوئے ہوم ڈیپارٹمنٹ اور جی بی ڈی ایم اے کو کہ سب سے پہلے گلگت بلتستان میں ان جگہوں کا تعین کیا جائے جہاں پر سیلاب آتا ہے اس کی ڈیمارکشن اور اس کے سو سو فٹ لفٹ رائٹ کی طرف جگہ چھوڑ کر ماڈرن کیا جائے دوسرا یہ کہ اس کے اندر جتنے گھر بنے ہیں ان کی شفٹنگ کرائی جائے کسی ایسے محفوظ مقام پہ جہاں جہاں پر سیلاب کا خطرہ نہیں ہے تیسرا یہ کہ سیلاب جہاں پر آتے ہیں وہاں پر ہم نے پلانٹیشن کرنا ہے ڈیپارٹمنٹ فزیبلٹی کروائے اور بتایا جائے وہ کون سی پلانٹیشن ہے کہ جہاں پر ہم سیلاب کو آنے سے تو نہیں روک سکتے اس کی تباہ کاریوں کو ہم روک سکتے ہیں اس کے اوپر ہم نے ایمرجنسی نافذ کیا ہے ہوم ڈیپارٹمنٹ اور جی بی ڈی ایم اے اگلے تین مہینے میں اس کی فزیبلٹی کرکے ہمارے پاس رپورٹ درج کرے گا۔
گلگت(بادشمال نیوز)گلگت بلتستان اسمبلی کے تیرہواں اجلاس میں گلگت بلتستان ریونیو اتھارٹی بل 2022اور گلگت بلتستان فوڈ اتھارٹی ترمیمی بل بھاری اکثریت سے منظور کئے گئے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید نے کہا کہ گلگت بلتستان ریونیو اتھارٹی بل گلگت بلتستان کی معاشی خود انحصاری کی طرف پہلا قدم ہے اور صوبے کو معاشی طور پر مستحکم اور خودکفیل بنانے کیلئے ریونیو اتھارٹی بل ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان جب تک آئینی دائرہ کار میں نہیں آتا تب تک ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح براہ راست ٹکسیز کا نفاذ عمل میں نہیں لایا جائیگا اور ریونیو اتھارٹی کو ملک کے دیگر صوبوں میں نافذ ٹیکسز کے ساتھ نتھی نہیں کیا جائے کیونکہ وفاق گلگت بلتستان میں کوئی ٹیکس نہیں لگا رہا اور ریونیو اتھارٹی گلگت بلتستان حکومت صوبے کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کیلئے قائم کر رہی اور یہ انکم ٹیکسز کے بجائے سروسز ٹیکسز ہیں اور ایکسائز ڈیوٹی، تعمیرات، سیاحت اور تجارت سمیت متعدد شعبوں میں سروسز ٹیکسز کی وصولی سے گلگت بلتستان میں صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں انقلابی اصلاحات عمل میں لائی جائینگی۔ان کا اس موقع پر مزید کہنا تھا کہ گلگت بلتستان حکومت سالانہ تعمیراتی شعبے کو 25 ارب سے زیادہ سرمایہ فراہم کرتی ہے اور مواصلات اور سیاحت کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی بھرپور مواقع اور سہولیات فراہم کر رہی ہے لیکن صوبائی حکومت کو ان شعبوں سے براہ راست وصولی کا اختیار نہ ہونے سے معاشی طور پر مستحکم ہونے میں مسائل کا سامنا ہے۔انہوں نے اس موقع پر مزید کہا کہ صوبائی حکومت گندم کے علاوہ بجلی کی فراہمی کیلئے بھی بھاری سبسڈی فراہم کر رہی ہے اور گلگت بلتستان میں بجلی کی فی یونٹ 15 روپے پیداواری لاگت پر 2 سے 3 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کرتی ہے اور بجلی کی فراہمی میں سبسڈی کے بجائے یہ رقم تعلیم، صحت اور دیگر مفاد عامہ کے منصوبوں پر خرچ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شیئر کریں

Top