ہم یوم القدس کیوں مناتے ہیں؟۔۔ حبیب اللہ آل ابراہیم

سلامی انقلاب ایران کے بانی حضرت امام خمینی سرزمین انبیاء فلسطین پر ناجائز اورغیرقانونی وجود پانے والی اسرائیلی ریاست کومسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیرکرتے تھے اوراس سے آزادی کا واحد راستہ جہاد سمجھتے ہوئے اسلامی ممالک کو فلسطین کی آزادی کیلئے متحدہوکرجدو جہد کرنے کی تلقین اورتاکید کرتے تھے مگرمسلمان ممالک خاص طورپرعرب دنیا نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کرنے میں ایک دوسرے پرسبقت لے جانے کواپنے لئے اعزازسمجھا جس کے باعث فلسطین کے مسلمان آج اسرائیل کے ظلم و ستم سہنے پرمجبورجبکہ مسلمان ممالک مفاداتی مصلحت کا شکارہوکرخاموش تماشائی بنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ 1948میں عالمی طاقتوں نے سازشی حکمت عملیوں اور چالاکیوں کو بروئے کارلاتے ہوئے انبیاء کی سرزمین پر یہودیوںکو آباد کرانے کا سلسلہ شروع کردیاجوں جوں یہودی آبادی بڑھتی گئی مشرق وسطیٰ کا امن تباہ وبرباد ہونے لگا،اگرچہ فلسطین کی مقدس سرزمین کی آزادی کیلئے 1948اور 1967 میں دو بڑی جنگیں لڑی گئیں مگربیرونی طاقتوں کی سازشوں اوراپنوں کی بے وفائیوں کی وجہ سے جہاں فلسطینی مسلمان بے گھر ہوکر دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں وہاں اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے اور تمام بین الاقوامی اورانسانی حقوق کے عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کر فلسطینی مسلمانوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیاجارہا ہے ۔ یوم القدس کو بہترسمجھنے کیلئے اس کی تاریخی پس منظرپرمختصرسی روشنی ڈالنی پڑے گی ،آج سے تقریباً74سال پہلے انبیا کی سرزمین فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس پر صیہونیوں نے عالمی قوتوں کی زیرسرپرستی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ناجائز قبضہ کرکے وہاں آباد مسلمانوں کو آہستہ آہستہ بے گھراورجلا وطن کرنا شروع کردیا،74 سال کا یہ دورانیہ عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا پڑا ہے تو دوسری طرف اس4 7سالوں میں کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں فلسطین کے مظلوم مسلمانوں پرظلم کے پہاڑ نہ توڑا ہوالغرض یہ 74سال مسلمانوں پریہودیوں کی بریت وحشت و درندگی اور سفاکیت کے ان گنت دردو خوفناک کہانیوںسے بھرے پڑے ہیں،ان 74 برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہرصبح قیامت اور ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ،ایسا کوئی لمحہ نہیں ہے جو بے گناہوں کے خون سے سڑکیں،بازار ،مساجد و عبادت گاہیں ،تعلیمی ادارے اورعوامی مقامات رنگیں اورسرخ
نہ ہوا ہو۔ اسرائیل کی غاصب حکومت نے فلسطینی مسلمانوں پراتنے مظالم کئے کہ تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں کوئی ایسا ظلم نہیں ہے جو فلسطین کے بے گناہ ،معصوم اور مظلوم عوام پر روا نہ رکھا گیاہو۔کوئی ایسا دن نہیں ہے جس میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بنت مسلم کی عزتوں کی پامالی نہ ہوئی ہو،حتیٰ کہ سکول جاتے معصوم بچوںکو بھی نہیں بخشا انہیں بلا وجہ گولیوں کا نشانہ بنایا،تعلیم کا حصول انسان کا بنیادی حق ہے لیکن غاصب حکومت کی فوج نے حصول تعلیم کے لئے جانے والے نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیںان کے والدین کے ہاتھوں میں تھمائے۔ حضرت امام خمینی شروع سے ہی فلسطین پراسرائیل کے قبضے کو ناجائزقراردیتے ہوئے اس کے خلاف آوازاٹھاتے چلے آرہے تھے تاہم ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوری بعد اسرائیل سے سفارتی ودیگرتعلقات منقطع کرکے سفارت خانے کو فلسطینیوں کے حوالے کردیا گیاجب اسرائیل کے مظالم بڑھتے گئے اورجنوبی لبنان پر حملے کئے تو امام خمینینے سنہ 1399 ہجری قمری میں رمضان کے آخری جمعے کو یوم القدس کے طور پر منانے کا اعلان فرمایاجس میں ہرگزرتے وقت کے ساتھ شدت اورجدت آنے کے ساتھ ساتھ عالمی سازشی قوتوں اوراسرائیل کے مکروہ چہروں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ 21 اگست 1969میںایک آسٹریلوی عیسائی شہری کے ہاتھوں مسجد اقصی میں آتشزدگی اوراس کے نتیجے میں عالم اسلام میں شدیدتشویش کی لہر اوراس وقت کے فلسطین کے مفتی اعظم امین الحسینی کی پکار پر مراکش میں مسلم ممالک کے سربراہ اکٹھے ہوئے اورفلسطین اوربیت المقدس کے دفاع کیلئے اسلامی بربراہی کانفرنس تنظیم کی بنیاد رکھی لیکن اوآئی سی سمیت عرب ممالک نے کبھی بھی بیت المقدس کی آزادی کیلئے کماحقہ آوازنہیں اٹھائی بلکہ اسرائیل سے قربت بڑھانے کیلئے بے چین رہے ۔ عرب ممالک نے فلسطینی مظلومین کادفاع کرنے کے بجائے اسرائیل سے دوستی نبھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، 2020میںامریکی صدرکی سرپرستی میں” ایبراہم اکارڈز یا ابراہیمی معاہدے”کئے جس میںمتحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان پیش پیش رہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ کے اقتدارکے آخری دنوں میں ابراہیمی معاہدوں کے تحت متحدہ عرب امارات اور بحرین کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے جن منصوبوں کو بڑے شد ومد سے آخری مراحل کی طرف لے گئے اس کے بعد سب نے دیکھا کئی عرب ممالک نے اسرائیل سے اپنے تعلقات استوارکرتے ہوئے مختلف شعبوں میںباہمی تعاون کے ایسے منصوبوں شروع کئے جن کی ماضی میںمثال نہیں ملتی،حال ہی میں اسرائیل میں ہونے والے ایک اوراہم کانفرنس میں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور مصر کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی اوریہ ممالک اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ اورباہمی تجارت کے فروغ کے لئے وسیع پیمانے پراقدامات کررہے ہیں یہاں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اورایران نے آج تک سیاستی اوراقتصادی مفادات کو پس پشت ڈال کرفلسطین اورمسلمانوں کے قبلہ اول کے دفاع کیلئے ان گنت قربانیاں دے رہے ہیںعالمی سطح پردبائو کے باوجود اسرائیل کی ریاست کو تسلیم نہیں کیا بلکہ پاکستانی پاسپورپ پر واضح لکھا ہے ”اسرائیل کے سوا دنیا کے تمام ممالک کے سفرکیلئے اسے استعمال کیا جاسکتا ہے ” فلسطینیوں پرمسلسل ہونے والے ان مظالم کے خلاف امام خمینی نے انقلاب ایران سے پہلے بھی آوازاٹھائی مگران کی آوازمیں توانائی تب آئی جب ان کی اپنی سرپرستی اورنگرانی میں ایران میں اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنارہوا جس کے بعد انہوں نے پوری طاقت اورتوانائی کے ساتھ دنیا بھرکے مظلوموں اورمستضعفین کے حق کیلئے استعماری اوراستکباری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرنا شروع کردیا۔ امام خمینی نے اسلامی انقلاب کی کامیابی وکامرانی کے بعد پوری دنیا میں مظلوم مسلمان سمیت تمام مستضعفین اورمظلومین پرہونے والے مظالم کے خلاف بلاتفریق اوررنگ و نسل آوازاٹھانا شروع کردیااما م خمینی اسرائیل کے وجود کو سرطانی پھوڑا جیسی خطرناک بیماری تصورکرتے تھے آپ نے ایک موقعہ پر فرمایاکہ” آج مسلمانوں کا قبلہ اول، اسرائیل مشرق وسطی میں اس سرطانی پھوڑے کے زیر قبضہ چلا گیا ہے۔ آج وہ پوری طاقت سے ہمارے عزیز فلسطینی اور لبنانی بھائیوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور خاک و خون میں تڑپا رہا ہے۔ آج اسرائیل تمام ترشیطانی وسائل کے ذریعے تفرقہ اندازی کررہا ہے۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں”۔ امام خمینی نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منانے کا اعلان کرکے عالم اسلام بلکہ پوری دنیا کو تمام مظلومین کی حمایت اور تمام ظالمین کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کاتصور دیا مظلوم کو ظالم کے خلاف آوازاٹھانے کی ہمت دلائی اوربقول علامہ اقبال ”کنجشکِ فرومایہ کو شاہین سے لڑنے ”کا گرسکھا دیا۔ حضرت علامہ اقبال نے بہت پہلے فرمایا تھا :
تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کر ارض کی تقدیر بدل جائے!
حضرت امام خمینی نے عظیم مفکراسلام حضرت علامہ اقبال کے اس خواب کو شرمندہ تعبیرکرتے ہوئے کافہ مسلم کے حقیقی رہبراوررہنما ہونے کا حق اداکیااور فلسطین،یمن،مقبوضہ جموں کشمیرسمیت دنیا بھرکے مظلوم مسلمانوں پرہونے والے مظالم کے خلاف حق کی آوازبلند کردی ۔ دراصل یوم القدس امت مسلمہ اور مستضعفین جہان کا دن ہے جس کا محورو مرکزفلسطین ہے امام خمینی نے اپنے پیغام میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔ایسا دن ہے جب سپر طاقتوں کو سمجھانا چاہئے کہ اب وہ اسلامی ممالک میں اپنی مرضی نہیں چلا سکتے میں، یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرمۖکا دن تصورکرتاہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یوم القدس دنیا کے تمام مظلومین کی حمایت اور تمام ظالمین کے خلاف صدائے احتجاج کا دن ہے لیکن اس دن کے خلاف عالمی استعمار سازشوں میں مصروف ہے اورمسلمانوںکو یہ سمجھانے کی ناکام کوشش کررہا ہے کہ چونکہ اس دن کو منانے کا اعلان ایران نے کیا ہے لہذا یہ شیعوں کا مخصوص دن ہے اسی طرح مسلمان حکمرانوںپراس دن کو نہ منانے کیلئے دبائو بھی ڈالا جارہا ہے اسی طرح میڈیا کو کوریج سے روکنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے ۔ اگراسلامی ممالک کے حکمران امام خمینیکے یوم القدس کے حوالے سے جاری بیان کو منشوربناتے اوراس پرعمل کرتے ہوئے اتحاد وو اتفاق کا عملی مظاہرہ کرتے تو تو اسرائیل کا ناپاک وجود آج کہیں نظر نہ آتا۔امام خمینی نے متعدد بارمسلمانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کیا اورفرمایا کہ اگر تمام مسلمان ایک ایک بالٹی پانی اسرائیل پر انڈیل دیں تو اس کے خاتمے میں ایک سیکنڈ بھی دیرنہ لگے۔ اس وقت مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی مفاد پرستانہ پالیسی کی وجہ سے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے جبکہ بین الاقوامی برادری اورعالمی قوتیں خاموش تماشائی کا کرداراداکررہی ہیں۔ اگرچہ یوم القدس منانے کی ابتداء ایران سے ہوئی تاہم حق ،سچ اورمظلومین کے حق کی آواز اسلامی ممالک سمیت یورپ اورامریکہ تک پھیل چکی ہے۔ اس آوازکو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے اوراسلامی ممالک میں ہونے والی بیرونی مداخلت کے خاتمے اورغلامانہ زندگی سے حقیقی نجات اورآزادی کے حصول کیلئے عالم اسلام کے جید اورباصلاحیت رہنمائوں کو آگے آنے اورآپس میں موجود اختلافات کے جگہ پراتحاد و اتفاق کو پروان چڑھانے کیلئے موثراورٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ۔اس وقت مسلمانوں کی جو صورتحال ہے وہ لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔مسلمان جن مسائل اورمشکلات سے دوچارہیں ان کا وحداورشافی حل امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و اتفاق میں پوشیدہ ہے ۔ مسلم رہنمائوں کو علاقیت ،لسانیت ،قومیت ،عصبیت ،عربی اورعجمی والے تصورکو بالائے طاق رکھ کرخالص اسلام کے سنہرے اصولوں پرعمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے اس میں سب کی بھلائی مضمرہے۔ اگرآج بھی فلسطین ،مقبوضہ جموں کشمیرسمیت دیگراسلامی ممالک میں مسلم نسل کشی جاری رہی اورخدا نخواستہ فلسطین کا وجود ختم ہوا تو اس کی تمام ترذمہ داری مسلمان ممالک پرعائد ہوگی

شیئر کریں

Top