اسمبلی کی جنگ اسمبلی میں لڑی جائے) جتھے لاکرکسی رکن اسمبلی کوروکنے کی اجازت نہیں دینگے،سپریم کورٹ

12345-485.jpg

اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست پر سماعت میں ریمارکس دئیے ہیں کہ یہ سارا قومی اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے،بہتر ہوگا اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے،عدالت اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کی قائل نہیں، عدالت چاہتی ہے کسی کا حق متاثر نہ ہو،عدالت نے دیکھنا ہے کسی ایونٹ کے سبب کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نا رہ جائے، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے، عدالت اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کی قائل نہیں،سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں،عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے،کوشش کریں ڈی چوک پر جلسہ نہ ہو، اکٹھے بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں۔ پیر کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے روز سیاسی جماعتوں کے ممکنہ تصادم کے خلاف درخواست کی سماعت میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے اہم رہنما بھی عدالت پہنچے جن میں مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن، بلوچستان نیشنل عوامی پارٹی (بی این پی) کے اختر مینگل شامل تھے۔دورانِ سماعت وکیل (ایس بی سی اے) منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے گزشتہ حکم میں کہا تھا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کے علاوہ کوئی واقعہ نہیں ہوا، اسپیکر قومی اسمبلی نے 25 مارچ کو اجلاس طلب کرنے کا کہا ہے، آئین کی دفعہ 95 کے تحت 14 روز میں اسمبلی کا اجلاس بلانا لازم ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو دیکھنا ہے کہ کسی ایونٹ کی وجہ سے کوئی ووٹ ڈالنے سے محروم نہ ہو، ووٹ ڈالنا ارکان کا آئینی حق ہے۔وکیل سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ رولز کے مطابق 25 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہوگی، تحریک عدم اعتماد پر فیصلے تک اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی نہیں ہوسکتا، رول 37 کی خلاف ورزی صرف بے ضابطگی نہیں ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام اسمبلی کا اندرونی معاملہ ہے، بہتر ہوگا کہ اسمبلی کی جنگ اسمبلی کے اندر لڑی جائے، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کسی کے حقوق متاثر نہ ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی عمل میں مداخلت نہیں کریں گے، سپریم کورٹ نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے، عدالت ابھی تک اسمبلی کارروائی میں مداخلت پر قائل نہیں ہوئی، عدالت صرف چاہتی ہے کہ کسی کے ووٹ کا حق متاثر نہ ہو، یہ تمام نقاط اسپیکر کے سامنے اٹھائے جاسکتے ہیں۔دور ان سماعت پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے اسمبلی اجلاس طلب کرنے کا نوٹس عدالت میں پیش کیا اور کہا کہ اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کرکے آئین شکنی کی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن پر آئین کا آرٹیکل 6 لگا ہے پہلے ان پر عمل کروا لیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 17 سیاسی جماعتیں بنانے کے حوالے سے ہے، اس آرٹیکل کے تحت حقوق سیاسی جماعت کے ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 95 کے تحت ووٹ کا حق سیاسی جماعت کا ہوتا ہے جس کے تحت رکن کے انفرادی ووٹ کی حیثیت نہیں، نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کیس میں عدالت ایسی آبزرویشن دے چکی ہے، سیاسی جماعت میں شمولیت کے بعد اجتماعی حق تصور کیا جاتا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ بار چاہتی ہے کہ ارکان جس کو چاہیے ووٹ ڈالے، بار اگر زیادہ تفصیلات میں گئی تو جسٹس منیب اختر کی آبزرویشن رکاوٹ بنے گی، سوال یہی ہے کہ ذاتی چوائس پارٹی مؤقف سے مختلف ہو سکتی یا نہیں؟وکیل ایس بی سی اے نے کہا کہ تمام ارکان اسمبلی کو آزادانہ طور پر ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کی کس شق کے تحت رکن اسمبلی آزادی سے ووٹ ڈال سکتا ہے۔وکیل بار ایسوسی ایشن نے کہا کہ آرٹیکل 91 کے تحت ارکان اسپیکر اور دیگر عہدیداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بار کا کیس آئین کی کس شق کے تحت ہے یہ تو بتا دیں؟جس پر وکیل نے آرٹیکل 66 کا حوالہ دیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 66 کے تحت ووٹ کا حق کیسے مل گیا؟ یہ آرٹیکل تو پارلیمانی کارروائی کو تحفظ دیتا ہے، آرٹیکل 63 اے کے تحت تو رکن کے ووٹ کا کیس عدالت آسکتا ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ریمارکس دیے کہ ووٹ کا حق کسی رکن کا ابیسولیوٹ (قطعی) نہیں ہوتا، آپ تو بار کے وکیل ہیں آپ کا اس عمل سے کیا تعلق؟ بار ایسویشن عوامی حقوق کی بات کرے۔وکیل بار نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد بھی عوامی اہمیت کا معاملہ ہے۔چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ تحریک عدم اعتماد سے بار ایسوسی ایشن کو کیا مسئلہ ہے؟جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہیں ہونی چاہیے؟چیف جسٹس نے کہا کہ بار بار پوچھ رہے ہیں سندھ ہاؤس میں کیا ہوا؟ عدالت نے صرف آئین پر عمل کروانا ہے؟ سپریم کورٹ بار کے وکیل تیاری سے نہیں آئے، بار کو سندھ ہاؤس پر بات کرتے ہوئے خوف کیوں آرہا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ بار کو عدم اعتماد کے حوالے سے کیا تحفظات ہیں، بار کے وکیل کو سن چکے ہیں اب آئی جی اسلام آباد کو سنیں گے، آئی جی صاحب کیا دفعہ 144 لگ گئی ہے؟جس پر آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ اسلام آباد میں پہلے سے ہی دفعہ 144 نافذ ہے، ریڈ زون کے اطراف تک دفعہ 144 کا دائرہ بڑھا دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق پانچ بجکر 42منٹ پر35 سے 40 مظاہرین سندھ ہاؤس پہنچے۔آئی جی نے بتایا کہ مظاہرین جتھے کی صورت میں نہیں آئے تھے، دو اراکین اسمبلی سمیت 15 افراد کو گرفتار کیا گیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعتیں اپنی سیاسی طاقت پارلیمنٹ میں ظاہر کریں، سیاسی جماعتیں بتائیں وہ کیا چاہتی ہیں، پولیس کسی رکن اسمبلی پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رکن اسمبلی قانون توڑے گا تو پولیس بھی ایکشن لے گی، عدالت نے سیاسی قیادت کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ جمہوریت چلتی رہے، حساس وقت میں مصلحت کے لیے کیس سن رہے ہیں۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ سندھ ہاؤس پر حملے کا کسی صورت دفاع نہیں کرسکتا، وزیر اعظم کو عدالت کی تشویش سے آگاہ کیا ہے، وزیر اعظم نے کہا کہ پرتشدد مظاہرے کسی صورت برداشت نہیں، ایف آئی آر درج ہو چکی ہے جس کو شکایت ہولے متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ ہاؤس جیسا واقعہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے، کسی سیاسی جماعت کی وکالت نہیں کروں گا، اپنے عہدے کے تقدس کا ہمیشہ خیال رکھا ہے، او ائی سی کانفرنس کی وجہ سے ریڈ زون حساس ترین علاقہ ہے۔آئی جی اسلام آباد نے آگاہ کا کہ جے یو آئی (ف) نے بھی سندھ ہاؤس جانے کی کوشش کی تو انہیں بلوچستان ہاؤس کے قریب روک لیا گیا، سندھ ہاؤس واقعے پر شرمندہ ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس واقعہ پولیس کی اتنی ناکامی نظر نہیں آتا، اصل چیز اراکین اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کا ہے، ڈی چوک پر ماضی قریب میں بھی کچھ ہوا تھا جس کے اثرات سامنے آئے، ہفتے کو کیس سننے کا مقصد سب کو آئین کے مطابق کام کرنے کا کہنا تھا، دیکھیں گے سندھ ہاؤس حملے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کردیے ہیں، عوام کو اسمبلی اجلاس کے موقع پر ریڈزون میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ بار کی استدعا سے کوئی اختلاف نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 254 کو شاید غلط انداز میں لیا گیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پارلیمانی کاتروائی پر بات نہیں کررہی ورنہ تاخیر کی وجہ بتاتا، بار نے تمام اداروں کو قانون کے مطابق اقدامات کی استدعا کی ہے، بار کی دوسری استدعا امن و امان اور جلسے جلوس کے حوالے سے ہے، وزیراعظم سے گفتگو کے بعد عدالت کو کچھ باتیں واضح کرنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسمبلی اجلاس کے موقع پر کوئی جتھہ اسمبلی کے باہر نہیں ہوگا، کسی رکن اسمبلی کو ہجوم کے ذریعے نہیں روکا جائے گا، کئی سیاسی جماعتوں نے بیانات دیے ہیں، پولیس اور متعلقہ اداروں کو احکامات جاری کررہے ہیں

چائے خانوں سے عظیم عوامی ہال تک، چین میں جمہوریت کیسے کام کرتی ہے

123-30.png

چین: چین کے جنوب مغربی پہاڑی گاں سے تعلق رکھنے والی 106 سالہ لی چالان مقامی عوامی کانگریس انتخابات میں ایک درجن سے زائد مرتبہ ووٹ ڈال چکی ہیں۔

انہیں امید ہے کہ بیجنگ میں جاری قومی دو اجلاس میں شرکت کرنے والے دیہی علاقوں میں عمررسیدہ افراد کی دیکھ بھال پر بھرپور توجہ دیں گے۔

دریں اثنا چین کے مشرقی صوبہ آنہوئی کے لین ہوان میں چائے خانوں پر مقامی لوگوں میں کافی ہلچل ہے کیونکہ وہ اس اہم سیاسی موقع پر تبادلہ خیال کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں تاکہ قدیم قصبے کے لئے ترقی کے مواقع کی تلاش کرسکیں۔
یہ کہانیاں اس عمل کی جھلکیاں پیش کرتی ہیں کہ کس طرح چین میں شہری، جو دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں، ملک کے حقیقی اور مثر جمہوری عمل میں حصہ لیتے ہیں۔

قومی عوامی کانگریس (این پی سی) اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس (سی پی پی سی سی) کی قومی کمیٹی کے جاری اجلاس 1 ارب 40 کروڑ چینی عوام کی امنگوں کا جواب دینے اور انہیں آگے بڑھانے کے لئے یکجا کرنے کا مشن ہے۔

انتخابات، مشاورت، فیصلہ سازی، انتظام اور نگرانی کا احاطہ کرنے والی چین کی مکمل عوامی جمہوریت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ملک کو چلانے والے عوام ہی ہیں۔

مکئی کے دانیکے ساتھ ووٹنگ

صوبہ سیچھوان کے یا آن شہر سے تعلق رکھنے والی لی نے عوامی کانگریسز میں نائبین کے انتخابات میں شرکت کے اپنے پہلے تجربے کو یاد کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ 1953 کا موسم سرما تھا۔ ہم سب قطار میں کھڑے تھے، اور ہر ایک نے اپنے پسندیدہ امیدوار کے لئے ووٹ کے طور پر مکئی کا دانہ ڈالا۔ میں اتنی زیادہ پرجوش تھی کہ بمشکل سوسکی۔

ستمبر 1954 میں قومی عوامی کانگریس کا پہلا اجلاس ہوا، جس میں چین کے بنیادی سیاسی نظام کے طور پر عوامی کانگریسز کا نظام قائم کیا گیا۔

2020 کے اختتام تک چین میں تمام پانچوں سطح پر عوامی کانگریسز کے 26 لاکھ 20 ہزار نائبین ہیں۔

مجموعی طور پر 94.5 فیصد نائبین کانٹی اور قصبے کی سطح سے تھے جو تمام براہ راست ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر منتخب ہوئے تھے۔

عوامی کانگریسز شہر، صوبائی اور قومی سطح پر عوامی کانگریسز کے نائبین کا انتخاب اگلے درجے کے لئے کرتی ہیں۔

گزشتہ اکتوبر میں لی چالان نے ایک بار پھر انتخابی عملے کی طرف اپنے دروازے پر لائے جانے والے موبائل بیلٹ باکس میں اس وقت ووٹ ڈالا جب 1 ارب سے زائد ووٹرز نے قصبے اور کانٹی سطح پر عوامی کانگریسز کے ملک گیر انتخابات کے ایک نئے دور میں حصہ لینا شروع کیا۔

لی نے اس پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی کوئی نئی مدت شروع ہونے والی ہوتی ہے تو مجھے ووٹر کارڈ اور بیلٹ دیئے جاتے تھے۔

مکئی کے بیج سے لیکر موبائل بیلٹ باکس تک وقت بدل گیا ہے لیکن عوام کے اپنے ملک کا مالک ہونے کا احساس نہیں بدلا۔

1970 کی دہائی کے اختتام میں اصلاحات کے آغاز کے بعد سے کانٹی اور ٹان شپ کی سطح پر عوامی کانگریسز کے نائبین کے انتخابات میں ووٹرٹرن آٹ کی شرح تقریبا 90 فیصد رہی ہے جو بہت سے مغربی ممالک کے مقامی انتخابات سے کہیں زیادہ ہے۔

چین کے نائبین ، عوامی کانگریسز میں کل وقتی قانون سازوں کے طور پر کام نہیں کرتے بلکہ ان کی اپنی ملازمتیں اور کاروبار ہیں۔ ان کا تعلق تمام علاقوں، نسلی گروہوں، شعبوں اور سماجی گروہوں سے ہے۔ یہاں تک کہ سب سے چھوٹی آبادی والے نسلی گروہ کا بھی قومی عوامی کانگریس میں کم از کم ایک نائب ہے۔

جمہوریت نمائشی زیور نہیں مسائل کے حل کا راستہ ہے۔

گزشتہ برس کے دو اجلاسوں کے دوران قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں کی جانب سے پیش کی گئی تجاویز سے 1600 سے زائد حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کی تشکیل بارے ترغیب ہوئی۔

ان میں مزدوروں کے حقوق کے بہتر تحفظ سے متعلق تجاویز مثلا خوراک کی ترسیل اور کار ہیلنگ صنعتوں کو جولائی 2021 میں جاری کردہ سرکاری رہنما ضابطوں میں شامل کیا گیا۔

برطانوی مصنف اور سیاسی تبصرہ نگار کارلوس مارٹنیز نے کہا کہ چین میں عام لوگوں کے بنیادی مفادات کو حکومت میں مغرب کے برعکس کہیں زیادہ حد تک پیش کیا جاتا ہے۔

2022 کے ایڈل مین ٹرسٹ بیرومیٹر کے مطابق 2021 میں چینی شہریوں کا اپنی حکومت پر اعتماد 91 فیصد تھا جو سروے میں شامل 28 ممالک میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار ہارورڈ کینیڈی اسکول کے سروے کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں۔

چائے کی چسکی کے ساتھ گفت وشنید

لین ہوان قصبے کے رہائشی اپنی صبح کا آغاز چائے کے ایک کپ سے کرتے ہیں۔

گزشتہ صدیوں میں 20 سے زائد چائے خانوں کے ساتھ شہر میں پھلتی پھولتی چائے کی ثقافت نے چائے پیتے وقت بات چیت کا رواج قائم کیا ہے جس نے چائے خانوں میں قومی عوامی کانگریس کے ڈپٹی اسٹوڈیو کا آغاز بھی کیا ،جہاں کانٹی اور قصبے کی سطح کے نائبین ہر ماہ آتے اور رہائشیوں کے ساتھ گپ شپ کرتے ہیں۔

ابلتے پانی کے برتن کے اردگرد بیٹھے لیو جن ہوا اور ان کے کئی دیہاتی ساتھی چائے کی چسکی کے ساتھ اس ماہ نائبین کے ساتھ اٹھائے جانے والی تجویز پر تبادلہ خیال کررہے ہیں جس میں ایک مناسب عوامی بیت الخلا کی تعمیر بھی شامل ہے۔

دیہاتیوں کو بتایا گیا کہ ہمارے پاس اس بارے مختلف تجاویز ہیں کہ اسے کہاں تعمیر کیا جائے، لہذا ہم آج یہاں بہترین مقام پر تبادلہ خیال کرنے اور بہترین جگہ کی تلاش میں ہیں۔

گزشتہ 5 برس میں اس قصبے بارے 300 سے زائد تجاویز نائبین نے وصول کیں، اور سڑک کی تعمیر، آبپاشی، اسٹریٹ لائٹ کی تنصیب سے لیکر پرانے درختوں کے تحفظ تک کے معاملات کو نمٹایا۔

چائے خانوں میں ثالثی کے کمرے بھی ہیں۔ ثالثی کرنے والوں کی بدولت چائے پیتے وقت مقدمہ نمٹایا جاسکتا ہے۔

لین ہوان شہر کی طرح نچلی سطح پر جمہوری مشاورت اور انتظام چین میں رہنے والے غیر ملکیوں کو بھی اس سے جڑنے کا موقع دیتا ہے۔

شنگھائی میں لین ہوان سے تقریبا 7گھنٹے کی مسافت پر ایک ترک بینکر نویان رونا ، 20 سال سے زیادہ عرصے سے اس شہر میں مقیم ہے، اور وہ اپنے رہائشی علاقے میں خامیوں کو دور کرنے کے خواہاں ہیں۔

ماحولیاتی حفظان صحت، غذائی تحفظ، سڑک کے ناموں کے ترجمے سے لیکر ریلنگ کی تنصیب تک، ان کی بہت سی تجاویز پر عمل کیا گیا یہاں تک کہ ایک تجویز کو انفرادی انکم ٹیکس قانون پر نظر ثانی میں بھی شامل کیا گیا۔

رونا کی رائے میں تجاویز دینا شکایت کرنا یا صرف سوالات اٹھانا نہیں ہے، یہ چیزوں کو ایک مخصوص نقطہ نگاہ سے اور وقت کے ساتھ مشاہدہ کرنے اور حل پیش کرنے بارے ہے۔

چائے خانوں میں، درختوں کے نیچے، صحن اور کانفرنس رومز میں آف لائن خیالات کے تبادلے سے لیکر 1 ارب سے زائد چینی انٹرنیٹ صارفین کے آن لائن مباحثے تک، چینی عوام نے اپنی دانش مندی اور جدت کے ساتھ مختلف اور موثر ذرائع تلاش کئے ہیں۔

اگست 2020 میں جب حکام نے 14 ویں پانچ سالہ منصوبے 2025-2021 کے مسودے کی تیاری کے لئے آن لائن عوامی رائے طلب کی تو اگست 2020 میں 10 لاکھ سے زائد آرا موصول ہوئیں۔

چائنہ اینڈ گلوبلائزیشن کے ایک سینئر فیلو لارنس جے برہم نے کہا کہ چینی جمہوریت مغرب سے مختلف ہے، یہ دراصل اتفاق رائے پیدا کرنے کا نظام ہے۔ یہ خاموش اور کئی طریقوں بالکل تائی چی کی مانند ہے۔

موثر فیصلہ سازی کے براہ راست راستے پر گامزن

چین کے مشرقی صوبہ ژے جیانگ کے ای وو شہر میں ایک دکان کے ملازم ،لو شیا یو اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ کھانے کی پیکیجنگ پر ختم ہونے کی تاریخوں کو زیادہ نمایاں طور پر ثبت کرنے کے بارے میں ان کی رائے انسدادِ خوراک کے فاضل مواد سے متعلق قومی قانون پر اثر انداز ہوئی ہے۔

نئی قانون سازی پر تجاویز طلب کرنے کے لیے ایک نچلی سطح کے سیمینار میں شرکت کرتے ہوئے اکتوبر 2020 میں لو کی رائے ریکارڈ کی گئی تھی، اور اسے براہ راست قومی عوامی کانگریس کی قائمہ کمیٹی کے قانون سازی کے امور بارے کمیشن کو ارسال کیا گیا۔

یہ سب کچھ کمیشن کی جانب سے قائم کیے گئے نچلی سطح کے رابطہ مراکز کی وجہ سے ممکن ہوا، اور یہ عام لوگوں اور چین کی اعلی مقننہ کے مابین براہ راست رابطے کے طور پر کام کرتے ہیں، اور جو کہ ملک کی جمہوری فیصلہ سازی کو سرانجام دیتے ہیں۔

چین میں سال 2015 سے اب تک ایسے 20 سے زیادہ مراکز قائم کیے گئے ہیں، جو کہ صوبائی سطح کے دو تہائی سے زیادہ علاقوں پر محیط ہیں، جس سے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قومی قانون سازی میں اپنی فراست کا حصہ ڈالنے کا موقع ملا ہے۔

قانون سازی ایک مشکل اور وقت طلب عمل ہے۔ مثال کے طور پر ای کامرس کے قانون کے نفاذ میں مجموعی طور پر پانچ سال لگے اور اس دوران رائے عامہ جاننے کے لئے تین ادوار اور چار مباحثے منعقد ہوئے۔

حتمی دفعات میں صارفین کے حقوق، خاص طور پر ان کے ذاتی تحفظ پر زیادہ زور دیا گیا ہے، اور ای کامرس کا کاروبار چلانے والوں کی ذمہ داریوں اور فرائض میں مناسب اضافہ کیا گیا ہے۔

چین کی جانب سے مشکل حالات میں جمہوری مرکزیت کا نفاذ موثر، سائنسی اور عوام پر مبنی فیصلہ سازی کی ضمانت دیتا ہے۔

جب 2020 کے اوائل میں چین کا صوبہ ہوبے نوول کرونا وائرس کے پھیلا کا سامنا کر رہا تھا، حکومت نے معمولی علامات والے مریضوں کے علاج کے لیے عارضی ہسپتال بنانے کا فوری فیصلہ کیا،جس نے نوول کرونا وائرس کے پھیلا کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ کچھ ملکوں کے بالکل برعکس ہے جہاں لوگ اس بات پر نہ ختم ہونے والی مخالفت میں مشغول تھے کہ آیا عوام کے لئے ماسک کو لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔

چین کی حکومت بھی تمام فیصلوں پر عملدرآمد کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس نے اپنے عوام سے کبھی کھو کھلے وعدے نہیں کیے۔

ہر سال، دو اجلاسوں کے دوران قومی عوامی کانگریس کے ذریعے حکومتی امور کی رپورٹ پر غور و خوض کیا جاتاہے اور اسے اختیار کرنے کے بعد ریاستی کونسل جلد ہی کاموں کو تقسیم کرتی ہے، اس میں شامل محکموں اور مدت کے تعین کی وضاحت کی جاتی ہے اور اس پر عمل درآمد کی سختی سے نگرانی ہوتی ہے۔

عظیم عوامی ہال جمہوریت کی نشانی

بیجنگ کے مرکز میں واقع عظیم عوامی ہال میں جہاں دو اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں، قومی قانون سازوں اور سیاسی مشیروں کے سامنے مقامی عوامی کانگریس اور مقامی عوامی حکومتوں کے نامیاتی قانون میں ترمیم کا مسودہ رکھا جاتا ہے۔

توقع کی جاتی ہے کہ مکمل عوامی جمہوریت کو قانون کا حصہ بنایا جائے گا، جس میں مقامی قانون سازوں اور حکومتوں کے نظم ونسق اور عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا تاکہ 1 ارب 40 کروڑ افراد پر اثر انداز ہونے والی کثیرالجہتی اور ہمہ جہتی جمہوریت کو یقینی بنایا جا سکے۔

قومی عوامی کانگریس اور چینی عوامی سیاسی مشاورتی کانفرنس کی قومی کمیٹی کے سالانہ اجتماعات میں چینی رہنماں سمیت ہزاروں قومی قانون ساز اور سیاسی مشیر اکٹھے ہوتے ہیں، جہاں بڑے قومی ترقیاتی منصوبوں پر تفصیل سے بات چیت ہوتی ہے اور لوگوں کی گزربسر سے متعلق اہم مسائل کا جائزہ لیا جاتاہے۔

چین کی اعلی ترین ریاستی طاقت کے اس پلیٹ فارم پر نئے چین کا پہلا آئین متعارف کرایا گیا، 2 ہزار سال پرانے زرعی ٹیکس کے خاتمے کا اعلان کیا گیا، عوام کے حقوق کے زیادہ سے زیادہ تحفظ پر مبنی ملک کا پہلا سول کوڈ اپنایا گیا، اور ایک یکساں مواقع فراہم کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاری کے قانون کی منظوری دی گئی ، جہاں تمام اندرون و بیرون ملک سرمایہ کار حصہ لے سکتے ہیں اور مقابلہ کر سکتے ہیں۔

قومی عوامی کانگریس کے نائبین ریاستی طاقت کا استعمال کر تے رہے ہیں، اور پارٹی کی تجاویز اور عوام کی منشا کو ریاست کی مرضی میں تبدیل کرتے رہے ہیں، اور قانونی طریقہ کار سے گزر کر اجتماعی اقدامات کرتے ہیں، جو کہ عوام کی حیثیت ملک کے حکمران اور قانون پر مبنی حکمرانی کے طور پر کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ (سی پی سی ) کی قیادت کے انضمام کو اجاگر کرتی ہے۔

چین میں کام کرنے والے جمہوری نظام نے بڑے ملک کو اس قابل بنایا ہے کہ وہ گزشتہ برسوں کے دوران تیز رفتار اقتصادی ترقی اور طویل مدتی سماجی استحکام حاصل کر سکے۔

چین کے پاس آج دنیا کا سب سے بڑا سماجی تحفظ کا نظام موجودہے، اس نے کامیابی کے ساتھ انتہائی غربت کا خاتمہ کیا ہے، بدعنوانی کے خلاف جنگ میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے، اور سب محاذوں پر قومی سلامتی کو فروغ دیا ہے۔ اس کی مجموعی ملکی پیداوار 1 ہزار کھرب یوآن (158 کھرب 30ارب امریکی ڈالرز) سے تجاوز کر گئی ہے، فی کس آمدنی 10 ہزار ڈالر سے بڑھ گئی ہے۔

جنوبی افریقہ کے ایک ماہر پال ٹیمب نے نشاندہی کی ہے کہ چین کی مکمل عوامی جمہوریت مشترکہ مفادات کو پورا کرتی ہے اور اچھی طرز حکمرانی سے وابستہ ہے۔

اس دنیا میں جمہوریت کئی صورتوں میں موجود ہے۔ مکمل عوامی جمہوریت انسانیت کی سیاسی ترقی کے لیے ایک نیا انتخاب ہے۔

سیچھوان کے شہر یا آن کے ایک گاں یوآن گن سے تعلق رکھنے والی قومی عوامی کانگریس کی نائب، ما ژین فانگ اس سال کے قومی عوامی کانگریس سیشن میں دیہی عمررسیدہ افراد کی خدمات کو بہتر بنانے کے بارے میں اپنے ساتھ ایک تجویز لے کر آئی، جو کہ لی چا لان جیسے بزرگ دیہی باشندوں کے ساتھ وسیع مشاورت پر مبنی تھی۔

ما نے کہا کہ جمہوریت ایسے ذرائع پیدا کرنے کا نام ہے جس کی بدولت ہر آواز سنی جائے۔

سرمایہ کار کی کشتی کو ششکٹ سے ہٹایا جائے،کامل جان

shabiul-hassan.jpg

ہنزہ(بیورورپورٹ)کامل جان سابق امیدوار صوبائی اسمبلی حلقہ چھ ہنزہ اور نمبردار ششکٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عطا اباد جھیل پر ایک خواجہ سرمایہ کار نے ایک بڑا کشتی لا کر ششکٹ کے چھوٹے کشتی مالکان کے دو وقت کی روٹی چھینے کی کوشش کی ہے جس کی ہم بر پور مزمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید اور چیف سکریٹری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طور پر اس خواجہ سرمایہ کار کی کشتی کو وہاں سے ہٹایا جائے ششکٹ کی زمینیں قدرتی وسائل ششکٹ کے عوام کی ملکیت ہیں اگر کسی سرمایہ کار نے عطا آباد کے مقام پر زمین لی ہے تو کاروباری مقاصد ہوٹل انڈرسٹری کے مقصد کے لئے لی ہے چاہیں ہاشوانی ہو یا لاشاری ششکٹ عطا اباد کے قدرتی وسائل اور زمینوں میں ان کا کوئی حصہ نہی انھوں نے جن مقاصد کے لئے زمینیں لی ہیں ان مقاصد کے حساب سے کاروبار کریں اور چھوٹے کاروباری افراد سے روٹی چھینے کی کوشش نہ کریں ورنہ یہاں کے عوام کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگی اور ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونگے افسوس کا مقام ہے کہ ان سرمایہ کاروں کو یہاں لانے میں ہمارے نمایندوں کا اہم کردار ہے اگر ان سرمایہ کاروں نے اپنا رویہ تبدیل نہی کیا تو مجبور ہو کر ششکٹ عطا اباد کے عوام کو ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا پڑے گا انھوں نے صوبائی حکومت وزیر اعلی گلگت بلتستان خالد خورشید اور چیف سکریٹری سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر خواجہ سرمایہ کار کی کشتی کو ششکٹ عطا اباد سے ہٹایا جائے نہ ہٹانے کی صورت میں عوام احتجاج پر مجبور ہونگے۔

اومیکرون کی علامات کیا ہیں اور یہ کووڈ کی دوسری اقسام سے کتنا خطرناک ہے؟

123-1.webp

پاکستان کی طرح دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلا میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلا کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ گذشتہ تین سے چار ہفتوں میں پاکستان میں بھی وائرس کی نئی قسم کے پھیلاو میں تیزی آئی ہے۔ ان کے مطابق وائرس کی نئی قسم کے زیادہ تر کیسز، لگ بھگ ساٹھ فیصد، دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ فورا کورونا کی ویکیسن لگوائیں اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ تیسری خوراک (بوسٹر) لگوائیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک اتنی زیادہ مہلک اور جان لیوا تو ثابت نہیں ہوئی جس کا خطرہ تھا لیکن جس تیز رفتاری سے اس کا پھیلا ہو رہا ہے، وہ ایک پریشان کن امر ہے۔ اسی لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کی کیا علامات ہیں اور کیا یہ گذشتہ وائرس کی نسبت مختلف طریقے سے انسانی جسم پر اثر انداز ہوتی ہے؟
اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟
گزشتہ 24 گھنٹوں میں انڈیا میں 90,000 سے زیادہ افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس میں 26 سو سے زیادہ متاثرین میں اومیکرون کی تشخیص ہوئی ہے۔ انڈیا کی ویکسین ٹاسک فورس کے سربراہ ملک میں وبا کی تیسری لہر شروع ہونے کی تصدیق کی ہے
اب تک کی تحقیق اور منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق جب اومیکرون کسی بھی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوںکہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔ دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، ناک کا بہنا اور سر درد شامل ہیں۔
کیا پاکستان میں اومیکرون وائرس کی قسم کی علامات دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہیں یا ویسی ہی ہیں؟ یہ سوال بی بی سی نے سندھ کی وزیر صحت سے کیا جہاں سب سے پہلے پاکستان میں اومیکرون کا کیس سامنے آیا تھا۔
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون کی علامات نسبتا ہلکی اور فلو جیسی ہیں جو کورونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ مختلف نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اِن علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی اور بخار شامل ہیں۔
ڈاکٹر عذرا کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ اومیکرون کس حد تک کسی کو متاثر کرتا ہے اس کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ کیا متاثرہ شخص نے کورونا کی ویکیسن لگوا رکھی ہے یا نہیں اور آخری ویکیسن لگوائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔
اومیکرون سے قبل منظر عام پر آنے والی کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں ایک اہم علامت یہ تھی کہ متاثرہ مریض کو شکایت ہوتی تھی کہ اس کی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے یعنی نا تو کسی کھانے کا ذائقہ آتا تھا اور نا ہی کسی قسم کی خوشبو یا بدبو کا احساس ہوتا تھا۔ یہ ایک اہم نشانی تھی جس سے معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ کورونا وائرس ہی ہے۔
لیکن اومیکرون میں یہ علامات اس شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں۔ پرانے وائرس میں مریض کو کھانسی اور بخار کی علامات بھی ظاہر ہوتی تھیں۔ ماہرین کے مطابق اومیکرون میں یہ علامات بھی اتنی حد تک عام نہیں لیکن اب تک عالمی اور سرکاری سطح پر کورونا وائرس کی سب سے بڑی تین علامات یہی ہیں کہ مریض کو کھانسی اور سر درد کے ساتھ ذائقے اور سونگھنے کی حسوں میں کمی محسوس ہو گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک اومیکرون وائرس سے متعلق اعداد و شمار پر تحقیق کی کمی ہے۔
نزلہ زکام اور اومیکرون میں کیسے تفریق کی جائے؟
پاکستان میں اومیکرو
زوئی کووڈ ایپ نے سینکڑوں افراد سے یہ سوال کیا کہ ان میں کورونا کی کیا علامات ظاہر ہوئیں اور بعد میں ان کو کون سے وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ماہرین نے ان اعداد و شمار کا جائزہ لے کر یہ بتایا کہ کسی کو بھی ان پانچ اہم علامات پر نظر رکھنی چاہیے جن میں ناک کا بہنا، سر درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش اور چھینکیں آنا شامل ہیں۔
اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ کورونا وائرس کی تشخیص اور تصدیق ہو سکے۔ جس کے بعد ہی یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ وائرس کی کون سی قسم نے متاثر کیا ہے۔
اب تک ماہرین کا ماننا ہے کہ اومیکرون وائرس کورونا کی کسی بھی پرانی قسم بشمول ڈیلٹا سے زیادہ تیزی سے پھیلا ہے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اومیکرون کی اس خصوصیت کے باوجود اس نے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ڈیلٹا نے کیا تھا۔
اسی وجہ سے اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اومیکرون پرانے وائرس کی اقسام کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مرض میں شدت نہیں آتی اور یہ اتنا زیادہ مہلک نہیں رہتا۔
دوسری جانب جہاں گذشتہ دو سال کے دوران طب کے شعبے نے وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے وہیں کورونا وائرس کی ویکسین کے عام ہونے سے بھی فرق پڑا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک دوسری تحقیق میں پتا چلا ہے کہ وائرس کی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر ہونے کی صورت میں ایمرجنسی یا ہسپتال کے وارڈ میں داخلے کا امکان نصف ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیلٹا کے مقابلے صرف اومیکرون کی صورت میں ہسپتال داخلے کا خطرہ ایک تہائی ہے۔
ویکیسن کی تیسری خوراک بچاو کا بہترین طریقہ ہے
کورونا وائرس کی ویکسین
یو کے ایچ ایس اے میں چیف میڈیکل ایڈوائزر سوزین ہاپکنز کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا ان حوصلہ افزا اشاروں کی تائید کرتا ہے جو ہم نے دیکھے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہو گا کہ ڈیلٹا کے مقابلے اومیکرون کی وجہ سے لوگ کس حد تک بیمار ہونے کے بعد ہسپتال لائے جاتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘اومکیرون کے پھیلنے کی شرح زیادہ ہے اور انگلینڈ میں 60 سال کی عمر کے متاثرین بڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے ہفتوں میں این ایچ ایس پر دبا بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔’
انھوں نے بتایا کہ ‘ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین کے لیے آنا، خاص کر تیسری خوراک کے لیے، اس انفیکشن اور شدید بیماری سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے۔’واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا کے خلاف ویکیسن کی تیسری خوراک کی سہولت موجود ہے اور اسے 30 سال سے زائد افراد کسی بھی ویکیسن سینٹر جا کر حاصل کر سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی ورکرزکنونشن میں سکیورٹی اہلکاروں کے رویے پر کارکنوں کا احتجاج

635645_67129126-94.jpg

مانسہرہ (ویب ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے مانسہرہ میں ہونے والے ورکرز کنونشن میں سابق تحصیل ناظم اسحق ذکریا سکیورٹی اہلکاروں سے الجھ پڑے۔سکیورٹی اہلکاروں نے ورکرز کنونشن میں اسحق زکریا کو ان کی نشست سے اٹھانیکی کوشش کی ۔سکیورٹی اہلکاروں کے روییکے خلاف پی ٹی آئی کارکنوں نے ورکرز کو عزت دو کے نعرے لگائے۔اس موقع پر پی ٹی آئی کے سینیئر رہنماں نے صورت حال کو کنٹرول کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کرایا۔

خود سے خشکی کا علاج کیسے کریں؟…………میگزین رپورٹ

2266293-dfidshehbazsharif-1641109505-464-640x480-24.jpg

ڈینڈرف یا بالوں میں خشکی ایک ایسا مسئلہ ہے جو بہت سے لوگوں کو پریشان کرتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ خشکی بنیادی طور پر فنگس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ خشکی قدرتی طور پر ہم سب کی جلد پر ہوتی ہے لیکن ان میں سے نصف لوگوں کے لیے یہ پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس میں بھی ایک تہائی لوگ ایسے ہیں جن میں یہ مسئلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ان کے لیے اس سے باہر نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ خشکی کا مسئلہ بہت عام ہے لیکن بعض اوقات یہ سماجی سطح پر شرمندگی کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے سماجی تقریبات میں جانا اور لوگوں سے ملنا جلنا کم کر دیا ہے کیونکہ وہ خشکی کی وجہ سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن ڈریں نہیں! خشکی سے نمٹنے کے کچھ مثر طریقے ہیں۔ بالوں کی خشکی کے لیے جو فنگس بنیادی طور پر ذمہ دار ہے، اسے مالاسیزیا گلوبوسا کہتے ہیں۔ یہ فنگس ہماری جلد اور ہمارے بالوں کا تیل جذب کر لیتی ہے لیکن جب یہ ایسا کرتا ہے تو ساتھ ہی یہ اولئیک ایسڈ پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے ہماری جلد پر خارش ہو سکتی ہے۔ کچھ لوگوں میں یہ مدافعتی عمل کو کم کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے سر کی خشک جلد نکلنے لگ جاتی ہے۔ فضائی آلودگی اسے مزید خراب کرتی ہے جبکہ سورج کی یو وی شعاعیں اس کیفیت کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ ایسی صورتحال میں سر کی خشکی سے نجات حاصل کرنے کے لیے سر پر تیل لگانا بالکل بھی اچھا نہیں تاہم کچھ کیمیکلز ایسے ہیں جن کی مدد سے اس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے زیادہ مثر اینٹی فنگل کیمیکلز مائیکونازول اور کیٹوکونازول ہیں۔ کیٹوکونازول کچھ شیمپو میں استعمال ہوتا ہے لیکن مائیکونازول فی الحال صرف جلد کی کریم کے طور پر دستیاب ہے تاہم جانوروں کے لیے دستیاب کچھ شیمپو میں کیمیکل مائیکونازول ہوتا ہے۔ اگرچہ آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ اینٹی فنگل شیمپو کا اثر کچھ عرصے بعد نہیں رہتا۔ اس لیے آپ کو وقتا فوقتا ان کو دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیلی سائلک ایسڈ پر مشتمل شیمپو بھی خشکی سے چھٹکارا پانے میں مدد کرسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ زنک یا سیلینیم پر مشتمل شیمپو بھی فنگس سے بچا میں مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں خشکی سے نجات کے لیے کئی طرح کی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں۔ محققین نے مالاسیزیا کے جینیاتی کوڈ کو ترتیب دیا ہے اور اس کی مدد سے اس فنگس سے چھٹکارا پانے کے لیے مزید مثر ادویات تیار کرنے کا کام کیا جا رہا ہے۔
خود سے خشکی کا علاج کیسے کریں؟
عام طور پر گہرے رنگ کے بالوں میں خشکی کے فلیکس واضح طور پر نظر آتے ہیں جب یہ مسئلہ بڑھ جاتا ہے تو کندھوں پر بھی خشکی جھڑ جھڑ کے ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کے سر میں خشکی محسوس ہو سکتی ہے اور آپ کو خارش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ کوئی بھی اچھا اینٹی ڈینڈرف شیمپو استعمال کریں۔ اس میں بھی آپ کو کئی طرح کے برانڈز مل جائیں گے۔ خشکی سے بچا کے لیے آپ ایسے شیمپو خرید سکتے ہیں جن میں یہ کیمیکل ہوں: اگر خشکی کا مسئلہ بہت زیادہ ہے تو تقریبا ایک ماہ تک اینٹی ڈینڈرف شیمپو استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ چاہیں تو ایک سے زیادہ اینٹی ڈینڈرف شیمپو بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے بالوں کے لیے کون سا بہتر ہے۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے خشکی نہیں بڑھتی لیکن ہاں یہ بات یقینی ہے کہ اگر آپ اپنے بالوں کو صاف نہیں رکھیں گے تو یہ زیادہ ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ تنا کی وجہ سے اور سرد موسم میں خشکی کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔

ایڈیٹر آئی این پی طارق سمیر کی والدہ کی وفات پرتعزیت کیلئے آنے والوں کا تانتا

مشاہد حسین سید، مرتضیٰ جاویدعباسی اور امتیاز رانجھا سمیت کئی اہم سیاسی مذہبی وسماجی شخصیات کااظہارافسوس ،مرحومہ کے ایصال ثوا ب، لواحقین کے صبرجمیل کی دعا
اسلام آباد/راولپنڈی (آئی این پی) ملک کے معروف وسینئر صحافی اور انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان(آئی این پی) کے ایڈیٹر طارق محمود سمیر کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لئے آنے والو ں کا سلسلہ جاری ہے جس میں مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما و سی پیک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید، مرتضیٰ جاویدعباسی اور امتیاز رانجھا سمیت کئی اہم سیاسی ، مذہبی وسماجی شخصیات نے ایڈیٹر آئی این پی سے ان کی والدہ کی وفات پر تعزیت کااظہار کرتے ہوئے مرحومہ کے ایصال ثوا ب کے لئے دعا کی ۔ تفصیلات کے مطابق ملک کی بڑے خبررسا ں ادارے (آئی این پی) کے ایڈیٹر اور سینئرصحافی طارق محمود سمیراور آر آئی یوجے (دستور ) کے صدر کے انتقال پر تعزیت کے لئے آنے والو ں کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنما و سی پیک پارلیمانی کمیٹی کے سربراہ مشاہد حسین سید،(ن) لیگ کے رہنما و سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاویدعباسی ، راحت قدوسی ،مسلم لیگ (ق) کے چوہدری امتیازاحمد رانجھا ، مصطفی ملک ، آزادکشمیر قانون سازاسمبلی کے رکن افضل خالق وصی اورسابق میئر راولپنڈی سردار نسیم سمیت پی ٹی آئی ، مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ق) اور دیگرسیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت کئی اہم شخصیات نے ایڈیٹر آئی این پی سے ان کی والدہ کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کے درجات کی بلندی اور اہلخانہ کے صبرجمیل کی دعا کی ۔ انہوں نے طارق محمود سمیر اور حاجی نواز رضا سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے مرحومہ کی وفات کو ان کے اہلخانہ کے لیے عظیم صدمہ قرار دیا اور دعا کی کہ اللہ تعالی مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو اس ناقابل تلافی نقصان کو برداشت کرنے کی توفیق عطاکرے ۔کئی شخصیات نے ایڈیٹر آئی این پی کی رہائش گاہ پر پہنچ کر جبکہ بعضنے ٹیلیفون کے ذریعے تعزیت کااظہار کیا۔ واضح رہے کہ حاجی محمد نوازرضا اور طارق محمود سمیر کی والدہ 21 فروری بروز اتوارطویل علالت کے بعد خالق حقیقی سے جا ملیں ، ان کی نماز جنازہ اتوار کو مصریال چوک میں ادا کی گئی اور انہیں آبائی قبرستان میں ہزاروں اشک بار آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔نماز جنازہ میںمسلم لیگ( ن )کے چیئرمین سینیٹرراجہ محمد ظفر الحق، سویٹ ہوم کے چیئرمین زمرد خان، سابق ایم این اے ملک ابرار احمد، آزاد کشمیر کے وزیر حافظ احمد رضا قادری، قانون ساز اسمبلی آزاد کشمیر کے رکن عبدالرشید ترابی، ممتاز ٹرانسپورٹر میاں انجم قریشی، میاں طاہر قریشی اور سربراہ انجمن بہبود حجاج بابو عمران قریشی، مسلم لیگ( ن )کے رہنما حافظ فاروق خٹک، سمیت صحافیوں، سیاسی رہنماوں، اہل علاقہ اور عزیز واقارب سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔

پاکستان میں مرگی سے بچاؤکیلئے ‘برین پیس میکر’ ڈیوائس لگانے کا آغاز

1939188-mainphoto-1553790160.jpg

لاہور(آئی این پی)پاکستان میں مرگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے برین پیس میکر کی ڈیوائس لگانے کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے،لاہور کے نجی اسپتال میں ماہر اسپائن ڈاکٹر آصف بشیر نے پشاور اور سندھ سے تعلق رکھنے والے 2 مریضوں کو برین پیس میکر ڈیوائس لگا کر ملک میں اس طریقہ علاج کی ابتدا کر دی ہے، نجی ٹی وی کے مطابق ڈاکٹر آصف نے کہا کہ امریکا میں 20سال سے یہ آپریشن ہو رہے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ سرجیکل آلات پر ڈیوٹی ختم کرے تاکہ ملک میں آپریشن کی لاگت کم ہو سکے۔

 ملی یکجہتی کونسل کی 35 جماعتوں کا سربراہی اجلاس 13 جنوری کو منصورہ لاہور میں منعقد ہو گا،لیاقت بلوچ

logo.png

لاہور: جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ ملی یکجہتی کونسل کی 35 جماعتوں کا سربراہی اجلاس 13 جنوری کو منصورہ لاہور میں منعقد ہو گا ۔

پاکستان اور عالم اسلام کے لیے نئے خطرات کے سدباب کے لیے پاکستان کی دینی جماعتیں اپنا لائحہ عمل طے کریں گی ۔ اپنے جاری بیا ن میں انہوں نے کہا کہ امریکہ ، اسرائیل اور بھارت کی شیطانی تثلیث مسلمانوں اور عالم اسلام کے لیے خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے ۔ کشمیر کو ہندوستان ہڑپ کر رہاہے،

فلسطین پر اسرائیل ناجائز قابض ہے ۔ فلسطینیوں کو آزاد ی سے محروم کرنے اور صدی کی ڈیل مسلط کرنے کے لیے امریکہ عالم اسلام پر نئی جنگ مسلط کر رہاہے ۔ دینی جماعتوں اور قیادت کو اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے اور اپنا فرض ادا کرناہے ۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ اتحاد امت ہی عالم اسلام کو زوال ، ذلت اور رسوائی سے بچائو کا پائیدار ذریعہ ہے۔ اب بھی غلامانہ ذہنیت سے جان نہ چھڑائی تو فکر و نظر کی یکسوئی کی بجائے انتشار اور عدم استقلال بڑی تباہی کا باعث ہوگا ۔

انہوں نے کہاکہ قاضی حسین ا حمد  جرأت مند اور عشق رسول ۖ سے سرشار تھے، وہ قائد اعظم ، علامہ اقبال  اور مولانا مودودی  کی فکر کے سفیر اور زبردست نقیب تھے ۔ قائداعظم  اور علامہ اقبال  کا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا وژن اور دو قومی نظریہ ہی مسلمانوں کے مستقبل کا سچا امین تھا ۔

ہندوستان کی تازہ صورتحال بھارتی قیادت کے خبث باطن کو بے نقاب کر رہی ہے ۔ دو قومی نظریہ ہی بڑا سچ تھا ، ہندو برہمنوں کا سیکولرازم فریب اور جھوٹ تھا ۔ لیاقت بلوچ نے کہاکہ پاکستان عالمی سطح پر کردار اسی وقت اد ا کرسکتاہے کہ نظریاتی ، ر یاستی ، اقتصادی اور آئینی و پارلیمانی بحرانوں کے خاتمہ کے لیے قومی قیادت قومی ترجیحات پر متحد ہو جائے ۔

حکومت غریبوں کو مارنے پر تلی ہوئی ہے ۔ مہنگائی ،بے روزگاری، بدامنی اورمایوسی کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی،امیرالعظیم

logo.png

لاہور:سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان امیر العظیم نے کہاہے کہ حکومت نے غربت ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر جب سے آئی ہے غریبوں کو مارنے پر تلی ہوئی ہے ۔

مہنگائی ،بے روزگاری، بدامنی اور مایوسی کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ عام آدمی کے لیے دو وقت کے کھانے کا انتظام کرنا مشکل ہوگیاہے ۔ دال ، سبزی اور آٹا بھی لوگوں کی پہنچ سے باہر ہوچکاہے ۔اگر حکومت نے مہنگائی اور بے روزگاری کو کم کرنے کی طرف توجہ نہ دی تو عوام زیادہ دیر ان بے حس حکمرانوں کو برداشت نہیں کریں گے ۔

ان خیالات کااظہار انہوںنے منصورہ میں جاری مرکزی تربیت گاہ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تربیت گاہ سے نائب امیر جماعت اسلامی عبدالغفار عزیز نے بھی خطاب کیا ۔ امیر العظیم نے کہاکہ آئی ایم ایف کی غلامی میں حکومت تمام حدیں پار کر گئی ہے ۔ آئی ایم ایف نے اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیارات سنبھال لیے ہیں ۔

آئی ایم ایف کے حکم پر چینی ، گھی اور گیس و تیل کی قیمتیں مقرر کی جاتی ہیں ۔ حکومت غریبوں کا خون نچوڑ کر آئی ایم ایف کے حوالے کر رہی ہے لیکن عوام کی چیخیں اور فریاد یں بنی گالہ کے شہنشاہ تک نہیں پہنچ رہیں ۔ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے غریب کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہوگیاہے ۔

Top