نیا سال پرانی باتیں………تحریر……میجر مسعود الحسن صدیقی

31دسمبر 2021 کی رات سونے سے پہلے خیال آیا کہ کل ایک نیے سال کی صبح طلوع ہوگی۔ 2021 کی محرومیاں۔ تلخیاں۔ آزمایشیں۔ اذیتیں اور مصیبتیں سال کے اختتام کے ساتھ ہی دم توڑ جایں گی اور نیا سال حقیقت میں ملک وقوم کی خاطر بہتریاں اور مسرتیں لے کر طلوع ہوگا۔ قوم کو صرف تاریخ میں ہی تبدیلی دیکھنے کو نہیں ملے گی بلکہ مثبت تبدیلی کا آغاز بھی دکھای دے گا۔حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کی سوچ اور طرز عمل میں بھی اصل تبدیلی نظر آے گی جس کو دیکھتے ہوے اس توقع کے ساتھ 2022 کا آغاز کریں گے کہ اب حالات سدھریں گے۔ اب سوچ بدلے گی۔ اب بہتری آے گی۔
لیکن یہ کیا۔ 2022 کی پہلی صبح ناشتہ کرتے ہوے ٹی وی پر نظر پڑی تو پہلی بریکنگ نیوز دکھای دی کہ پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ کردیا گیا۔ دوسری خبر یہ تھی کہ موٹروے دھند کی وجہ سے فلاں فلاں جگہوں سے بند ہے۔ ایک اور خبر کچھ ایسی تھی کہ ملک میں کورونہ کے مریضوں کی شرح میں اضافہ۔ ایک اور خبر یہ تھی کہ نیے سال کی آمد پر ملک کے مختلف شہروں میں ہوای فایرنگ سے چند اموات اور متعدد زخمی ہو گیے۔ جبکہ اپوزیشن رہنماوں میں سے چند کے تنقید براے تنقید سے بھرپور حکومت کے مستعفی ہونے کے مطالبے والے بیانات بھی ویسے ہی نظر آے۔ یعنی کچھ بھی پرانے سال سے مختلف نہیں تھا۔ وہی مہنگای کا عفریت منہ پھاڑے نظر آ رہا ہے۔ منی بجٹ کے ساتھ ساتھ پٹرول کی قیمت میں اضافہ دیگر اشیا کے نرخوں میں بڑھوتری کی اطلاع دے رہا ہے۔ عوام کے لیے نان جویں کا حصول مزید مشکل ہوتا دکھای دے رہا تھا۔ مختلف علاقوں کی فضا میں دھند اور سموگ کی موجودگی جہاں انتظامیہ کی نااہلی کا ثبوت مہیا کررہی ہے وہیں فضا کی آلودگی میں اضافے میں ایسے عناصر کی شراکت کا عندیہ بھی دے رہی ہے جو مختلف ذرایع سے اس آلودگی میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں
وباوں کے پھیلاو کی شرح میں اضافہ یہ ظاہر کررہا ہے کہ آنے والے سال میں بھی ہمارے ہسپتالوں میں کوی سدھار نہیں آنا۔ اور عوام نے بھی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا نہیں ہونا۔ سیاسی میدان میں بھی حالات میں کچھ تبدیلی کے آثار نہیں۔
یعنی یہ تبدیلی بھی بس نام کی تبدیلی ہی ہونے جا رہی ہے۔ اور آنے والے سال سے جو خوشیوں اور بہتری کہ توقعات ہیں وہ بس توقعات ہی رہیں گی۔
دراصل ہم سب اپنے حالات میں تبدیلی اور بہتری چاہتے تو ہیں لیکن اس مقصد کے لیے خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ بلکہ معجزوں کے ذریعے بہتری لانا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے تو ہیں کہ ملک کا شمار ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں ہو لیکن اس کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے ہم خود کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ ہماری دلی خواہش یہ ہے کہ کوی ہمیں امریکہ۔ برطانیہ۔ چین۔ جاپان جیسا ملک بنا کر دے دے جہاں ہم خوشحال زندگی گزار سکیں۔ کوی ہماری لوٹی ہوی دولت واپس لا کر خزانے میں ڈال دے تاکہ ہمارا ملکی خزانہ خود بخود بھر جاے اور ہمیں ٹیکس بھی نہ دینا پڑے اور خود سے محنت بھی نہ کرنا پڑے۔ہم خود تو اپنے گھروں کا کچرہ گلیوں میں پھیلاتے رہیں اور حکومت یا ادارے ہمارے گردونواح کی آلودہ فضا صاف کردے تاکہ ہم آلودگی کے مضر اثرات سے محفوظ ہوجایں۔ اللہ تعالی ہمارے مسایل کو حل کردے تاکہ ہمیں اپنے مسایل حل کرنے کے لیے محنت نہ کرنا پڑے۔ ہم اتنے آرام طلب ہو چکے ہیں کہ ہم محنت و مشقت کر کہ اپنے لیے روزی کمانے کی بجاے پناہ گاہوں اور فری لنگروں کا رخ کرنے کو فوقیت دیتے ہیں۔ ہم اتنے مطلب پرست ہو چکے ہیں کہ اپنی آمدن میں چند ٹکوں کے اضافے کی خاطر حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر ہر جایز و ناجایز کام کر جاتے ہیں اور ایک لمحے کو یہ نہیں سوچتے کہ ہماری اس حرکت کے اثرات کیا ہوں گے۔ ہم اپنے حقوق حاصل کرنے کی خاطر تو ہر روز احتجاج کرنے پر تیار رہتے ہیں لیکن اپنے فرایض کی ادایگی کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ ہم اپنے لیے تو خالص اشیا ارزاں نرخوں پر حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن پیسہ کمانے کی خاطر دوسروں کو ملاوٹ زدہ اشیا فروخت کرنے سے باز نہیں آتے۔ ہم خود تو ایر کنڈیشنڈ کمروں میں صاف ستھری فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں لیکن آلودگی پھیلاکر دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بننے سے باز نہیں آتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا ہر آنے والا دن ہمارے (باقی صفحہ 6بقیہ نمبر3)
مسایل میں اضافہ کررہا ہے۔ فیض احمد فیض نے غالبا ہماری اسی قومی سوچ کوبھانپتے ہوے کہا تھا،
اے نیے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے؟
روشنی دن کی وہی، تاروں بھری رات وہی
آج بھی ہم کو نظر آتی ہے، ہر ایک بات وہی!!
آخر ہم کب اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ اپنی اور اپنے ملک کی حالت کو بدلنے کے لیے ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔ ہمیں اپنے زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ بدلنے ہوں گے۔ ملک کی ترقی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو پہچان کر ان سے عہدہ برا ہونا ہوگا۔ خود کو ایک غیر منظم گروہ کے زمرے سے نکال کر ایک قوم بننا ہوگا۔ اور اتحاد تنظیم اور یقین محکم کے اصولوں کو تھام کر آگے بڑھنا ہوگا۔ تاکہ ہمارا ہر آنے والا دن ہمارے ملک و قوم کے لیے درخشاں مستقبل کی راہیں ہموار کرے۔

شیئر کریں

Top