پی اے سی کی ہدایات کے باوجود نیشنل بینک کا آڈٹ شروع نہ ہو سکا

5fc5d0b6c603a.jpg

کمیٹی آڈیٹر جنرل سے آڈٹ نہ کرانے پر نیشنل بینک حکام پر برس پڑی۔۔ہائی کورٹ سے کیس واپس کرانے کیلئے نیشنل بینک کو خط لکھیں اور بینک کا آڈٹ کرائیں ، کمیٹی کی وزارت خزانہ کو ہدایت
ریاست کے اندر ریاست بن گئی ہے ، یہ پارلیمنٹ کے خلاف چلے گئے ہیں ، ان کو تکلیف کیا ہو رہی ہے؟ ہماری واضح ہدایت ہے کہ آڈٹ کرائیں، کیاوہاں اتنی گڑ بڑ ہے جو آڈٹ میں آجائے گی؟ ان کو آڈٹ کرانا چاہیئے تھا، کیا یہاں سارے ایسے ہی بیٹھے ہوئے ہوئے ہیں، بھیڑ بکریاں ہیں؟ ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے، چیئرمین کمیٹی نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائیریکٹر ز کے چیئرمین پر برہم
کمیٹی وزارت اوورسیز پاکستانیز کے سال 2019-20کے آڈٹ اعتراضات کے حوالے محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس نہ ہونے پر بھی شدید برہم،محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت
اسلام آباد( آئی این پی)پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات کے باوجود نیشنل بینک کا آڈٹ شروع نہ ہو سکا ،کمیٹی آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ نہ کرانے پر نیشنل بینک حکام پر برس پڑی اور وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ وہ ہائی کورٹ سے کیس واپس کرانے کے لیئے نیشنل بینک کو خط لکھیں اور بینک کا آڈٹ کرائیں ، چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائیریکٹر ز کے چیئرمین پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کے اندر ریاست بن گئی ہے ، یہ پارلیمنٹ کے خلاف چلے گئے ہیں ، ان کو تکلیف کیا ہو رہی ہے؟ ہماری واضح ہدایت ہے کہ آڈٹ کرائیں، کیاوہاں اتنی گڑ بڑ ہے جو آڈٹ میں آجائے گی؟ ان کو آڈٹ کرانا چاہیئے تھا، کیا یہاں سارے ایسے ہی بیٹھے ہوئے ہوئے ہیں، بھیڑ بکریاں ہیں؟ ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے، کمیٹی نے وزارت اوورسیز پاکستانیز کے سال 2019-20کے آڈٹ اعتراضات کے حوالے محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس نہ ہونے پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا اورو زارت اوورسیز پاکستانیز حکام کو واپس بھیجتے ہوئے آڈٹ اعتراضات پر محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کر دی۔جمعرات کو پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین کی صدارت میں ہوا،جس میں وزارت اوورسیز پاکستانیز کے سال 2019-20کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا جانا تھا تاہم آڈٹ اعتراضات پر ڈی اے سی کی میٹنگ نہ ہونے پر کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہار کیا،آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈی اے سی کے لیئے 25ستمبر 2019کو پہلا خط لکھا تھا،رانا تنویر حسین نے کہا دو سال ڈی اے سی کیوں نہیں کی ، یہ قانونی ضرورت ہے ، یہ لازمی ہے ، حیران ہوں کہ ڈی اے سی کرنے میں آپ بے سکونی محسوس کر رہے ہیں، ہر بندہ اپنی ریاست بنا کر بیٹھ گیا ہے، حد ہو گئی ہے، کرنا کیا ہے ہم نے یہاں؟ دو سال سے ڈی اے سی نہیں، کمیٹی نے وزارت اوورسیز پاکستانیز حکام کو واپس بھیجتے ہوئے آڈٹ اعتراضات پر محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس منعقد کرنے کی ہدایت کر دی۔اجلاس میں نیشنل بینک کی جانب سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے آڈٹ نہ کرائے جانے کا معاملہ بھی زیر بحث آیا، نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائیریکٹر ز کے چیئرمین زبیر سومرو ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے ، چیئرمین کمیٹی رانا تنویر حسین نے کہا کہ یہ بھی وہی کیس ہے ریاست کے اندر ریاست بن گئی ہے ، یہ پارلیمنٹ کے خلاف چلے گئے ہیں ، ان کو تکلیف کیا ہو رہی ہے؟ نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائیریکٹر ز کے چیئرمین زبیر سومرو نے کمیٹی کو بتایا کہ ہم نے قانون کو فالو کرنا ہے، ہائی کورٹ نے کیس کافیصلہ محفوظ کیا ہے،رانا تنویر حسین نے کہاکہ آپ کو ہائی کورٹ نہیں جانا چاہیئے تھا ہماری واضح ہدایت ہے کہ آڈٹ کرائیں، کیاوہاں اتنی گڑ بڑ ہے جو آڈٹ میں آجائے گی؟ آپ کو آڈٹ کرانا چاہیئے تھا،رانا تنویر حسین نے کہا کہ کیا یہاں سارے ایسے ہی بیٹھے ہوئے ہوئے ہیں، بھیڑ بکریاں ہیں؟ ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے، نیشنل بینک کے بورڈ آف ڈائیریکٹر ز کے چیئرمین زبیر سومرو نے کہا کہ معاملہ عدالت میں ہے،رانا تنویر حسین نے کہا کہ یہ غلط روایات ہے جو آپ کر رہے ہیں، آڈٹ ہونا چاہیئے، رکن کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ بینک بنایا کس نے ہے؟ بینک کے صدر اور چیئرمین کون تعینات کرتا ہے یہ بتا دیں،اگر تعیناتی حکومت پاکستان کرتی ہے تو پھر تو آپ آڈٹ کریں گے ، یہ آڈٹ کیوں نہیں کر رہے، ان کے خلاف سپریم کورٹ میں جانا چاہیئے، وزیراعظم کو بھی لکھنا چاہیئے، نیشنل بینک بورڈ کے چیئرمین کی جانب سے بغیر اجازت بولنے پر رانا تنویر حسین نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور ڈیسک پر ہتھوڑا مار کر کہا کہ میرے بولنے کے وقت نہ بولیں، میں نے آپ کی بات سنی ہے،نور عالم خان نے کہا کہ یہ ادارہ آڈٹ نہیں کرنا چاہتا ، بار بار کہنے کے بعد بھی بورڈ آڈٹ سے انکار کر رہا ہے، وزیر اعظم کو لکھنا چاہیئے، رکن کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ ماضی میں کیوں نہیں آڈٹ ہوا؟آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ ہمارا مینڈیٹ ہے، 2011میں ہم نے کیس ٹیک اپ کیا تو 2012میں وہ عدالت میں چلے گئے، رکن کمیٹی سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ عدالت سے کیس واپس لیا جائے، رکن کمیٹی ریاض فتیانہ نے کہا کہ ذمہ داری فنانس منسٹری کی ہے کہ وہ پی اے سی کی ہدایات پر عملدرآمد کرائے، کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت کی کہ کیس واپس کرانے کے لیئے خط لکھیں اور بینک کا آڈٹ کرائیں۔

شیئر کریں

Top